LOADING

Type to search

اسلام آباد(بگ ڈیجٹ) نگران حکومت بجلی کے بھاری بلوں سےکیسے نجات دلائے گی

Share this to the Social Media

نگران حکومت مہنگائی پر قابوپانے کے لئے اقدامات کررہی ہے۔تاکہ عوام کو بجلی کے بھاری بلوں سے نجات دلا سکے.خیال رہے کہ
عالمی منڈی میں حالیہ دنوں میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر بھی کم ہوئی ہے جس کے نتیجے میں معاشی مشکلات پیدا ہوئی ہیں,بجلی کے بلوں نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہےاب تو فی یونٹ شاید پچاس روپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ بجلی کا یہ بم ہمارے سروں پر کیسے پھٹا ہے۔ جب آپ کسی مسئلے کی وجہ جانتے ہو تو پھرآپ کو مسئلے کی سمجھ آتی ہے, یاد رہے کہ بجلی کی قیمت بنیادی طورپر دو چیزوں سے طے ہوتی ہے۔ پہلی چیز ایندھن کی قیمت ہے کیونکہ ملک میں بجلی بنانے کے لئے بیرون ملک سے فرنس آئل، ڈیزل، کوئلہ یا دیگر درآمدی ایندھن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاﺅ ہے۔ ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ کرتی ہے۔
موجودہ قیمتوں میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ عمران خان کے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے طے کردہ شرائط اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو معاشی خودانحصاری دینا بھی ہے۔ اب ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کرتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے حکومت پاکستان کا ماضی کی طرح اب سٹیٹ بینک پر کنٹرول محدود ہوگیا ہے۔ اگر مصنوعی طورپر حکومت ڈالر کی قیمت کو قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بڑھا جس سے ملک کے لئے مزید معاشی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ یاد رہے آئی ایم ایف نے بھی شرط عائد کررکھی ہے کہ حکومت ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طورپر کنٹرول نہیں کرے گی اور ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ ہی کرے گی۔ بجلی کی قیمت کا تعین کرنے والے دونوں عوامل یعنی درآمدی ایندھن اور ڈالر کی قیمت، حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں ۔ اس صورتحال میں توانائی کے متبادل ذرائع عوام کو ریلیف دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کے فروغ کی طرف سفر ابھی شروع ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم شہبازشریف کی مخلوط حکومت میں شمسی توانائی سے 10 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے منصوبے کا آغاز ہوا تھا جس پر عمل درآمد ابھی جاری ہے۔ اس کے نتائج آنے میں وقت لگے گا۔ اسی طرح ایک پہلو نجی بجلی پیداکرنے والے کارخانوں (آئی پی پیز) کو ادائیگیوں کا بھی ہے۔ اس میں بجلی کی پیداوار سے قطع نظر متعین ادائیگیوں کا بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ یہ ادائیگیاں ڈالر میں ہوتی ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ بجلی کی چوری کی صورت میں درپیش ہے جسے ’لائن لاسز‘ کی ایک ناسمجھ میں آنے والی اصطلاح میں چھپایا جاتا ہے لیکن سادہ الفاظ میں یہ بجلی کی چوری ہے یعنی بے ایمانوں کی بے ایمانی کی سزا ایمان دار بجلی صارفین کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ’لائن لاسز‘ کی تعریف میں آنے والے صارفین وہ ہیں جو بجلی کا بل سرے سے ادا ہی نہیں کرتے یا تاخیر سے بل بھرتے ہیں یا پھر اقساط میں بل جمع کراتے ہیں۔ اس تعریف میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کنڈے یا دیگر ہتھکنڈوں سے بجلی چوری کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ اُن صارفین کو ادا کرنا پڑتا ہے جو باقاعدگی اور ایمان داری سے بجلی کی ماہانہ بنیادوں پر قیمت ادا کرتے ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے بجلی تیار کرنے پر جو لاگت آتی ہے، وہ پوری مقدار میں وصول نہیں ہوپاتی اور بجلی کے شعبے کا خسارہ بڑھتا جاتا ہے جسے اب ”گردشی قرض“ کی ایک اور اصطلاح سے بیان کیاجاتا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی کا 75 فیصد استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں۔ صنعت، تجارت اور کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال ہونے والی بجلی سے کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں ، اس بجلی کے استعمال میں اگر اضافہ ہو تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے لیکن گھریلو صارفین کے بجلی کے استعمال کے نتیجے میں انہیں بجلی کے زیادہ بل آتے ہیں اور عوامی بے چینی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اچھی حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ گھریلو صارفین بجلی کے باکفایت استعمال کی عادت اپنائیں۔ جب تک ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع سے بجلی کے موجودہ بحران میں ایک بہتر صورتحال پیدا نہیں ہوتی، اس عرصے کے دوران قومی سطح پر ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اپنائے جاتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام، ادارے اور کاروبار کرنے والے زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی بروئے کار لاتے ہیں۔ دِن کے اُجالے میں کاروبار ہوتا ہے اور روزمرہ زندگی کے زیادہ تر کام سورج کی روشنی میں ہی انجام دئیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں رات دیر تک دکانیں کھُلی رکھنے اور دِن کے اُجالے کو ضائع کرنے کابدقسمت رجحان چلا آرہا ہے۔ توانائی کے بحران کے پیش نظر ہمیں بھی اپنی عادات اور طرز زندگی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بجلی کا سب سے زیادہ استعمال شام پانچ سے گیارہ بجے تک ہوتا ہے۔ گھریلو صارفین کو چاہیے کہ شام کے اِن اوقات میں اے سی، استری، موٹر وغیرہ جیسے زیادہ بجلی پر چلنے والے برقی آلات استعمال نہ کریں تاکہ گھریلو صارفین کا بجلی کا بل نہ بڑھے اور کھپت میں بھی کمی آئے البتہ فارمیسیز یعنی ادویات کی دُکانیںیا بیکریز کو کھلا رکھا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی ایک اچھی تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ ایک ہی علاقے میں موجودہ بیکریاں اور ادویات کی دکانیں ہفتہ وار ترتیب کے ساتھ کھُلی رکھی جائیں یعنی ایک ہی علاقے میں اگر دس دکانیں ہیں تو ایک دکان رات کو کھُلی رہے اور ددیگر بند رہیں۔ یہ عمل دنوں کی ترتیب سے کیاجاسکتا ہے تاکہ عوام کو تکلیف بھی نہ ہو اور بجلی کی بچت بھی کی جاسکے۔ بازار اور دکانیں صبح جلدکھول کر اور شام کو جلد بند کرکے بھی بجلی کی خاطرخواہ بچت کی جاسکتی ہے جبکہ اس سے درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والا اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاسکتا ہے۔ یہ تجویز بھی سامنے آرہی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کردی جائے۔ اس ضمن میں مثال پی ٹی سی ایل اور سابق ٹی آئی پی کی دی جاتی ہے۔ اس شعبے کی نجکاری سے قبل ٹیلی فون لگوانا دشوار ترین کام تھا لیکن جب سے اس شعبے کی نجکاری ہوئی اور دنیا کی مزید کمپنیاں اس شعبے میں شامل ہوئیں تو فون کنکشن لگوانا آسان ترین کام ہوگیا اور قیمتوں میں نمایاں کمی ہوگئی۔ اسی مثال پر چلتے ہوئے اب بجلی کے شعبے کی نجکاری بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اس شعبے کی نجکاری کے نتیجے میں مسابقت کا ماحول بڑھے گا جس سے صارفین کو فائدہ ملے گا جبکہ بجلی چوروں کو بجلی چوری کی سہولت ختم ہوگی۔ پچھلی مخلوط حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا، جس کے بعد بجلی کا بنیادی ٹیرف 24 روپے 82 پیسے سے بڑھ کر 29 روپے 78 پیسے ہو گیا ہے۔ ایسے میں زیاد تر پاکستانیوں کو یہی فکر ستا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ بجلی کے بل کیسے ادا کریں گے۔
واضح رہے کہ نینشل الیکٹرک پاور ریگولیٹر اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے بجلی کی قیمت میں 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے سے صارفین کو جو ایک یونٹ 24 روپے 82 پیسے کا پڑ رہا تھا اب وہی 29 روپے 78 پیسے کا پڑے گا۔

یعنی اگر آپ کے گھر میں ماہانہ چار سو یونٹ استعمال ہوتے ہیں تو پہلے آپ کا بل ٹیکس ملا کر تقریباً بارہ سے تیرہ ہزار آتا تھا جبکہ نئی قیمتوں کے مطابق اب وہی بل ٹیکس ملا کر تقریباً سولہ سے سترہ ہزار تک آ سکتا ہے۔

وفاقی حکومت کا بجلی کی قیمت میں اضافے کے فیصلے کے حوالے سے کہنا ہے کہ ایسے صارفین جو ماہانہ ایک سے 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں انھیں بجلی کا ٹیرف 3 روپے اضافے کے بعد 16 روپے 48 پیسے کا پڑے گا تاہم بجلی کے بینادی ایک یونٹ کی قیمت بجلی کے زیادہ استعمال کے ساتھ بڑھے گی۔

جیسا کہ 100 سے 200 یونٹ تک کا ٹیرف چار روپے اضافے کے بعد 22 روپے 95 پیسے ہو گا جبکہ ماہانہ 201 سے 300 یونٹ تک کا ٹیرف پانچ روپے اضافے سے 27 روپے 14 پیسے ہو گا۔

چند ماہ پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو ریلیف دیا جا رہا ہے جبکہ بہت سے صارفین نے ہمیں بتایا کہ انھیں ایسا کوئی ریلیف نہیں ملا تاہم کچھ صارفین ایسے بھی تھے، جنھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک دو ماہ کے لیے انھیں بجلی کے بل میں ریلیف ملا تھا۔

بجلی کی نئی قیمتوں کے بعد ماہانہ 301 سے 400 یونٹ کا ٹیرف 6 روپے 50 پیسے کے اضافے کے بعد 32 روپے 3 پیسے فی یونٹ ہو گا جبکہ 401 سے 500 یونٹ کا سلیب تبدیل کرنے کے بعد 7 روپے 50 پیسے اضافے سے 35 روپے 24 پیسے کا پڑے گا۔

501 سے 600 یونٹ استعمال کرنے والوں کو ٹیرف 37 روپے 80 پیسے فی یونٹ ملے گا جبکہ ماہانہ 700 یونٹ سے زیادہ کا ٹیرف 42 روپے 72 پیسے فی یونٹ تک ملے گا۔

یاد رہے کہ یہ تمام تر قیمتیں ٹیکسز کے بغیر ہیں۔ ماہرین کے مطابق ماہانہ 700 یا اس سے زیادہ یونٹ استعمال کرنے والوں کو تمام تر ٹیکسز ملا کر فی یونٹ تقریباً 50 روپے تک کا پڑ سکتا ہے۔
اگر آپ اپنا بجلی کا بل دیکھیں تو اس میں مختلف اقسام کے ٹیکس لگ کر آتے ہیں۔ جس میں جی ایس ٹی ہے جو ایف بی آر کو جبکہ ای ڈیوٹی صوبائی حکومت کو جاتی ہے۔ ایک ٹی وی فیس ہے اور ایک ایس یو آر یعنی سرچارج، جو ڈالر اور تیل کی قیمت بڑھنے یا کم ہونے سے بل میں لگ کر آتی ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر بجلی تیل سے بنائی جاتی ہے اور پاکستان زیادہ تر تیل باہر سے درآمد کرتا ہے، جو ڈالرز میں خریدا جاتا ہے۔ اس لیے بجلی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ روپے کے قدر کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔پاکستان میں بجلی چوری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے سرکاری محکمے بھی ہیں، جو اپنے بجلی کے واجبات ادا نہیں کرتے ہیں۔
بجلی کی قیمت تو بڑھ گئی سوال یہ ہے کہ بجلی کے بل میں کمی کیسے لا سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صارقین سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ پیک آورز میں ایسی کوئی مشین استعمال نہ کریں جو زیادہ بجلی استعمال کرتی ہو۔ جیسا کہ استری، واشنگ مشن، پانی والی موٹر وغیرہ۔اس علاوہ بجلی سے چلنے والی چیزوں کا متبادل استعمال کریں۔ مثال کے طور پر کچن میں استعمال ہونے والی مشینیں جیسے چاپر وغیرہ یا پھر واشنگ مشین کے متبادل ہاتھ سے کپڑوں کو دھونا۔ اگراے سی کا استعمال کر رہے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسے 26 پر چلائیں۔ غیر ضروری لائیٹیں اور پنکھے بند رکھیں تاکہ آبجلی بچا سکیں۔اس سے بھی بجلی کے بل پر خاصہ فرق پڑے گا۔ گزشتہ تیس برسوں میں بجلی کیوں مہنگی ہوئی۔ ایک دو روپے فی یونٹ سے یہ پچاس روپے فی یونٹ تک کیسے پہنچ گئی۔ یہ وہ دور تھا جب بجلی ابھی دیہات تک نہیں پہنچی تھی۔ پھر 1980ء کی دہائی میں بجلی دیہات تک لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت تک جو بجلی تربیلا ڈیم یا دیگر ایسے سستے ذرائع سے پیدا ہورہی تھی‘ وہ ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے کسی حد تک کافی تھی۔ دیہات میں لوڈشیڈنگ کر کے بھی کام چلا لیا جاتا تھا لیکن جب 1990ء کی دہائی شروع ہوئی تو جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا وہیں زیادہ سے زیادہ دیہات تک بجلی پہنچنے لگی۔ ہر ایم پی اے اور ایم این اے پر عوام کا دباؤ بڑھا کہ ووٹ لینے ہیں تو ہمیں بجلی دیں۔ یوں بجلی ایک بنیادی ضرورت کے بجائے ایک سیاسی رشوت بنتی چلی گئی۔ اس بات کا خیال کیے بغیر کہ بجلی کی کھپت بڑھنے سے مطلوبہ مقدار میں بجلی کہاں سے لائیں گے۔ اس کا ایک حل کالا باغ ڈیم تھا جس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی اور وہ بھی سستی ترین‘ لیکن اس پر خیبرپختونخوا اور سندھ نے اعتراضات اٹھا دیے۔ جہاں ایک وجہ اس علاقے کے لوگوں کے دیگر خدشات تھے وہیں ان دونوں صوبوں کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم پنجاب میں بن گیا تو پھر وہ بھی مرکز سے اس طرح بجلی کی رائلٹی لے گا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *