پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید تقویت دیتی ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے ہتھیار ڈالنے تک تعاقب کرنےکےعزم کااظہارکیا ہے,پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جنوبی وزیرستان کے علاقے آسمان منزہ کے قریب شیروانگی کے علاقے کا دورہ کیا جہاں پاک فوج کے 6 جوان دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔یاد رہے کہ دہشت گردی کے متاثرین کی یاد اور خراج عقیدت کا عالمی دن 21 کو جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 6 جوان شہید ہو گئے تھے۔ جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 6 جوانوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، جب کہ مؤثر کارروائی میں 4 دہشت گرد ہلاک اور 2 زخمی ہوگئے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جنوبی وزیرستان کے علاقے عسمان منزہ میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ پاک فوج کے جوانوں نے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 4 دہشت گرد ہلاک جب کہ 2 دہشت گرد زخمی ہوگئے۔ فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران 6 سپاہیوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔علاقے میں مزید دہشت گردوں کی موجودگی کے شائبے کے خاتمے کے لیے کلیئرنس آپریشن کیا گیا ۔
واضح رہے کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید تقویت دیتی ہیں۔دو روز قبل بھی خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے باڑا میں سیکیورٹی فورسز کی خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کی گئی کارروائی کے دوران 2 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے کے شروع میں سیکیورٹی فورسز نے اسی طرح کی ایک کارروائی 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں کی تھی اور دو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اسی طرح 13 اگست کو ضلع باجوڑ کی وادی چارمنگ میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے اور پاک فوج کا ایک جوان شہید ہوگیا تھا۔ یاد رہے کہ 30 جولائی کو ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن میں دھماکا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں 44 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
آئی ایس پی آر نے 29 جولائی کو جاری بیان میں کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے خیبر اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع میں مختلف کارروائیوں میں 3 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ27 جولائی کو ضلع خیبر کے علاقے باغ میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ جوانوں نے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے کا سراغ لگایا، جس کے نتیجے میں ایک دہشت گرد مارا گیا، ہلاک دہشت گرد سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ اسی طرح 28 جولائی کو جنوبی وزیرستان کے علاقے گومل زام میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان ایک اور شدید جھڑپ ہوئی جس میں 2 دہشت گرد مارے گئے۔ دہشت گرد کے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ اور بارود بھی برآمد کر لیا گیا جو علاقے میں مختلف دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جنوبی وزیرستان کے علاقے عسمان منزہ میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران پاک فوج کے 6 سپاہیوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 4 دہشت گرد ہلاک جب کہ 2 دہشت گرد زخمی ہوگئےاس سے قبل 16 اگست کو شمالی وزیرستان کے ضلع خیبر کے علاقے باڑا میں سیکیورٹی فورسز کی خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کی گئی کارروائی کے دوران 2 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے کے اوائل میں 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں کارروائی کی تھی اور دو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔ 13 اگست کو ضلع باجوڑ کی وادی چارمنگ میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے اور پاک فوج کا ایک جوان شہید ہوگیا تھا۔ حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب 30 جولائی کو ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن میں دھماکا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں 44 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیرکاکہنا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے دشمن ایجنڈے کے تحت کام کرنے والے دہشت گردوں، ان کے ساتھیوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کا ریاست کے سامنے ہتھیار ڈالنے تک ان کا تعاقب کیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جنوبی وزیرستان کے علاقے آسمان منزہ کے قریب شیروانگی کے علاقے کا دورہ کیا جہاں کل پاک فوج کے 6 جوان دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔آرمی چیف کی شیروانگی آمد پر کور کمانڈر پشاور نے ان کا استقبال کیا۔جنرل عاصم منیر کو موجودہ انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں سمیت موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔انہوں نے علاقے میں تعینات افسران اور فوجیوں سے بات چیت کی اور دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے میں ان کے غیر متزلزل عزم کو سراہا۔آرمی چیف نے کہا کہ شہدا ہمارا فخر ہیں اور پاکستان میں مکمل امن و استحکام کی واپسی تک ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی,
واضح رہے کہ 14 جولائی 2023 کوچیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ژوب میں دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کی سی ایم ایچ کوئٹہ میں عیادت کی اور پاک فوج کے بیان میں کہا تھا کہ مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کے لیے دستیاب مواقع پر تشویش ہے۔ آرمی چیف نے شہدا کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور سی ایم ایچ کوئٹہ میں داخل زخمیوں کی عیادت کی اور قوم کے لیے ان کی خدمات اور ان کے عزم کو سراہا تھا۔آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو کارروائیوں کے لیے آزادی اور محفوظ مقامات کی دستیابی پر انتہائی تشویش ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی‘۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اور تشویش ہے، جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں جن پر پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے مؤثر جواب دیا جائے گا‘۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی اور مسلح افواج اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک ملک سے دہشت گردی کا ناسور مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔ خیال رہے کہ بلوچستان کے علاقے ژوب میں واقع گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9 فوجی جوان شہید اور جوابی کارروائی میں 5 دہشت مارے گئے تھے۔ ژوب کینٹ میں دہشت گردوں کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا اور تنصیب میں گھسنے کی کوشش کی جنہیں ڈیوٹی پر موجود جوانوں نے روکا اور فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں دہشت گرد چھوٹی جگہ پر محدود ہوگئے تھے, آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ حملے میں زخمی ہونے والے مزید 5 جوان بھی شہید ہوگئے اور تعداد 9 ہوگئی جبکہ اس دوران 5 دہشت گرد بھی مارے گئے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے گزشتہ سال نومبر میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے پاکستان میں خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔اس سے قبل 2 جولائی 2023 کو بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کا ایک اور پولیس کے 3 اہلکار شہید ہوگئے تھے جبکہ ایک دہشت گرد مارا گیا تھا۔
واضح رہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کوخراج عقیدت پیش کرنےکے عالمی دن پر دہشت گردی سے پاک دنیا کا تصو تعاون کے بغیرممکن نہیں .اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے متاثرین اور بچ جانے والوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے حالیہ جاری وڈیو پیغام میں کہا کہ دہشت گردی کے متاثرین کی یاد اور خراج عقیدت کا عالمی دن ہر سال 21 اگست کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے موقع پرآئیے ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ دہشت گردی کے متاثرین اور بچ جانے والوں کا خیال رکھیں گے اور انہیں کبھی فراموش نہیں کریں گے، ہم متاثرین کے دکھ درد اور تکالیف میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے اس جنگ میں اپنے پیاروں کو کھو دیا، ہم دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیوں سے متاثرہ زندہ بچ جانے والوں کی آواز کو بلند کرنے، ان کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے ہر ممکن مدد کرنے کا عہد کرتے ہیں اور رکن ممالک کو قانونی، طبی، نفسیاتی اور مالی امداد فراہم کرنے کے لیے متحرک کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ماہ دہشت گردی کے متاثرین کی عالمی کانگریس میں زندہ بچ جانے والوں سے ان کی ضروریات اور پیش آنے والے چیلنجوں بارے سننے کے لیے بے تاب ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دہشت گردی کے متاثرین کی یاد اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا عالمی دن سن 2017 کو منانے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ تھا جسے کوئی بھی پاکستانی بھلا نہیں سکتا بلکہ دنیا بھی اس سانحہ کو کبھی بھلا نہ سکے گی۔ دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ایک تعلیمی درس گاہ پر حملہ کر کے علم کا دیا بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ننھے شہیدوں نے اپنے خون سے علم کا دیا ایسا روشن کیا کہ اب اس علم کے دیے کو کوئی طوفان بھی بجھا نہ سکے گا۔ دنیا کی تاریخ میںکسی بھی تعلیمی ادارے پر ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا پہلا حملہ تھا جس میں سکول کے معصوم اور بے گناہ بچوں پر بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور انھیں ان ہی کے پاک خون میں نہلا دیا گیا۔ تاریخ کی بدترین مثال بننے والے اس سانحہ میں آٹھ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے 132 معصوم طلباء سمیت 149 افراد شہید ہوئے۔ ان ننھے
شہیدوں میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر، کوئی حافظ قرآن تھا تو کوئی ماہر سائنس و ریاضیات، ہر بچہ ذہین اور ہونہار تھا۔ جب کوئی ننھا شہید بتاتا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اس کے سینے میں گولی مار دی جاتی، جب کوئی کہتا کہ انجینئر بننا ہے تو اس کے سر میں گولی مار دی جاتی یہاں تک کہ حافظ قرآن بچوں کے سینوں پر بھی گولیاں چلاتے ہوئے ان درندوں نے یہ نہیں سوچا کہ جس سینے پر وہ گولی مار رہے ہیں اس کے اندر قرآن پاک محفوظ ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی ایک نرس نے رونگٹے کھڑے کر دینے والی بات بتائی کہ آرمی پبلک سکول کے ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کو جب ریسکیو کر کے ہسپتال میں لایا گیا تو اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، دہشت گردوں کی گولیاں لگنے سے اس کے سر، جسم اور ٹانگوں پر خون ایسے رس رہا تھا جیسے پانی کا نل کھل گیا ہو، باوجود کوشش کے خون رک نہیں رہا تھا، اس تشویشناک حالت میں بھی شدید زخمی بچے کے منہ سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی کیونکہ بچہ حافظ قرآن تھا۔جوں جوں اس بچے کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی اس کی آواز لڑکھڑانے لگی لیکن اس نے تلاوت نہ چھوڑی یہاں تک کہ وہ بچہ شہید ہو گیا۔ اس واقعہ نے ہسپتال کے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملہ کو عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر دیا کہ کس طرح ایک حافظ قرآن بچے نے مرتے دم تک تلاوت نہیں چھوڑی اور دوسری جانب اس کو شہید کرنے والے کس مذہب کے ہیں کہ جنھیں معصوم اور بے گناہ بچوں کو بے دردی سے شہید کرتے ہوئے ذرا بھی رحم نہیں آیا۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کی چہچہاتی آوازیں، مسکراہٹیں ان کے والدین کو آج بھی سنائی دیتی ہیں، کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے کانوں میں اب بھی سکول کی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کی جرات مندانہ آواز گونجتی ہے کہ ”پہلے میری جان جائے گی پھر ننھی جانوں کو کچھ ہو گا۔” دہشت گردوں کی کمر تو اسی وقت ٹوٹ گئی تھی جب سکول کے زخمی بچوں نے کہا تھا کہ ”آپ ہمیں زخمی بچہ نہیں بلکہ زخمی فوجی سمجھیں۔” انہی ننھے شہیدوں اور ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا عالمی دن تھا۔دہشت گردی سے متاثرہ افراد کوخراج عقیدت پیش کرنےکے عالمی دن
پردہشت گردی سے پاک دنیا کا تصوربات چیت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے. الحمداللہ مجھے فخر ہے کہ ”میں خود ایک شہید مظہرعلی مبارک کا بھائی ہوں جو سال 2013 میں دھشتگردانہ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے تھے”ہمارے اصل ہیروز شہدا ءاور غازی ہیں اور جو قومیں اپنے شہدا ءکو بھول جاتی ہیں وہ جلد مٹ جاتی ہیں۔
ھم دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو نہ بھولے ہیں نہ بھولیں گے, شہداء کا خون آج بھی کہہ رہا ہے ملک کے لئے جانیں دینے والے شہداء قابل فخر ہیں۔
دہشت گردی سے متاثرہ ہیروز , شہداء کا خون ہم سب پر قرض ہےجو قومیں اپنے شہداء کو بھول جاتی ہیں، تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔ ہم شہدائے وطن کے ورثاء کا احسان مند ہیں۔ جن کے پیاروں کی قربانیوں کی بدولت آج وطن پر چھائے اندھیرے چھٹ چکے اور ایک روشن مستقبل کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں