سوشل میڈیا کے بے شمار فواٸد ہیں لیکن باشعورہونا ضروری شرط قراردیا جاتا ہے,سوشل میڈیا درحقیقت کماٸی، تبلیغ، جاسوسی، جنگِ ,حکومتوں کی تبدیلی، سیاسی اہداف، تہذیب و ثقافتوں کی حفاظت، ظالموں کےخلاف جنگِ، مظلوموں کی حمایت اور اعلٰی انسانی اقدار کی حفاظتی جنگ لڑنے والوں کے لٸے بہترین میدان اور اسلحہ ہے۔سوشل میڈیا کے بے شمار فواٸد ہیں، لیکن ان فواٸد کو حاصل کرنے کے لٸے باشعور اور پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ دیکھنے میں سماجی ذراٸع ابلاغ فقط ارتباط کا ذریعہ ہے
سوشل میڈیا کو اردو میں سماجی ذراٸع ابلاغ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سماجی ذراٸع ابلاغ کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، کوٸی آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ا س کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے وقت ضاٸع کرنے کے بجاٸے اس کی اہمیت کو جان کر اسے بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا کے ذراٸع بہت زیادہ ہیں۔ کچھ ملکی تو کچھ بین الاقوامی حیثیت اور پہچان رکھتے ہیں۔ جن میں انٹرنیٹ، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، ٹیلیگرام، انسٹاگرام اور واٹساپ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پہلی بار گلوبل ولیج کا تصور اور اصطلاح کینیڈا کے معروف مصنف مارشل مک لوہان نے دیا۔ یہ مصنف 21 جولاٸی 1911 میں پیدا ہوا۔31 دسمبر 1980 کو ٹورنٹو میں انتقال کرگیا۔ اس وسیع وعریض دنیا کو کم و بیش آج سے ستر اسّی سال قبل اسی مصنف نے عالمی گاٶں کہہ کر آنے والے دور میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ارتباطات و پیام رسانی کو قبل از وقت فاش کردیا تھا۔
آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی وسعتیں سکڑ چکی ہیں۔فاصلے اب قربتوں میں بدل گٸے ہیں۔ دوریاں نزدیکیوں میں ڈھل چکی ہیں مکان و زمان کے فاصلے سمٹ چکے ہیں۔ قلم و کاغذ کی جگہ اب انگلیوں کے لمس نے لے لیا ہے۔ زمین کے اس کنارے سے اس کنارے تک فریکوینسی پلک جھپکنے میں پہنچ جاتی ہے۔ نہ فقط آواز پہنچتی ہے بلکہ حرکات و سکنات بھی دیکھےجاسکتے ہیں۔ ان حرکات و سکنات کی جنبش کو اتنے دقیق اور سرعت سے دیکھا جاسکتا ہے کہ پلکوں کے جھپکنے اور ہونٹوں کے ہلنے کو میلوں کی مسافت میں ایک لحظے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ خط و کتابت کوآدھی ملاقات قرار دینے والے آج زندہ ہوتے تو نہیں معلوم کہ ویڈیو کال کو کونسی ملاقات قرار دیتے۔ اب تو نامعلوم معلوم میں، غاٸب شہود وحاضر میں، پس منظر پیش منظر میں، سرگوشی صداٶں میں، انتظار وصلوں میں، بےشعوری اب شعور میں بدل گٸی ہے۔ اب کوٸی بھی واقعہ دنیا کے جس کونے میں رونما ہوجاۓ منٹوں میں دوسرے کونے میں رہنے والوں تک پہنچ جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس واقعے پر اپنا فیڈ بیک، نکتۂ نظر اور جذبات کا اظہار کر کے اپنے احساسات کو ہزاروں لاکھوں لوگوں تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ اپنے گھر اور محلے میں دھتکارے ہوۓ لوگ بھی ہزاروں دوست احباب بنا سکتے ہیں۔ ایسے ایسے دوست جنہیں کبھی دیکھا نہ ہو، جن کے بارے میں کبھی سوچا نہ ہو۔ لیکن آپ نہ فقط اپنے دل کی بات ایسوں تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ وہ آپ کی دلجوٸی بھی کرسکتے ہیں۔
جغرافیاٸی سرحدیں اب ناکارہ ہوچکی ,نظریاتی سرحدیں اب مضبوط کی جاسکتی ہیں آپ کا نظریاتی دوست دنیا کے جس کونے میں بھی ہو آپ نہ فقط اسے ڈھونڈ سکتے ہیں، بلکہ فکری طور پر اس سے جڑ بھی سکتے ہیں۔ اپنی کامیابی کی خوشی اور ناکامی کا غم آپ دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔
دوسروں کی خوشی اور غم کو مل جل کر بانٹ سکتے ہیں۔مارشل مک لوہان نے واقعی بہت خوب کہا تھا کہ دنیا اب ایک عالمی گاٶں ہے۔
سوشل میڈیا نے فاصلوں کو سمیٹ کر پیام رسانی کو آسان کیا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو بھی سوشل میڈیا پہ ہے اس کا یقینا کوٸی عقیدہ یا نظریہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کو اپنے عقاٸد و نظریات کے پرچار و تبلیغ کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اس میں فیس بک اور واٹساپ قابل ذکر ہیں۔ فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام صاف سمندر کی مانند وسیع ہے۔
البتہ واٹساپ کنویں کی مانند ہے۔ جس میں بحث مخصوص افراد تک محدود رہتی ہے۔ بعض واٹساپ گروپ بدبودار پانی پہ مشتمل کنواں کی طرح ہے۔ جس میں ایڈ ہونے والا کچھ عرصہ اس بدبو سے اذیت محسوس کرتا ہے پھر دھیرے دھیرے وہ بھی عادی بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس تنہا مچھلی کی طرح ہیں جس کے بارے میں ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ ”ایک مچھلی سارے تالاب کو گندھا کردیتی ہے“۔ ایسا نظریاتی دوست کسی گروپ میں پہنچ جائے تو گروپ کو گندہ کیۓ بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ گروپس میں کسی بات پر بحث و مباحثہ کی گنجاٸش نہیں ہوتی۔ جونہی کسی بات پر بحث ہوتی ہے ایڈمن حضرات پہلی فرصت میں آنلی ایڈمن کردیتے ہیں۔ یہاں صرف مخصوص تنظیم یا شخصیت کی واہ واہ اور غیر ضروری اسٹیکرز کی بھر مار پہ سب خوش ہوتے ہیں جونہی کسی نظرے یا شخصیت پہ اصلاحی نقد کے ذریعے جہت دینے کی کوشش کریں تو گروپ سےنکال دیاجاتا ہے ۔
فیس بک تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔لیکن یہ ہر بندے کو ادراک نہیں۔ جس کسی کے ادراک میں یہ بات ہے وہ اپنے عقاٸد و نظریات کی تبلیغ و دفاع کرتا ہے۔ جسے یہ ادراک نہ ہو تو وہ کبھی شعوری تو کبھی لاشعوری طور پر دوسروں کے عقاٸد نظریات و اہداف کی نہ فقط تبلیغ کرتا ہے بلکہ اپنے ہی عقاٸد و نظریات و اہداف کی مخالفت بھی مختلف پوسٹوں کو لاٸک و شیٸر کر کے کرتا رہتا ہے۔مارشل مک لوہان اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ خود میڈیا ہی پیغام ہے۔ آپ پیام لانے والے کو پیام سے جدا نہیں کرسکتے۔ایسے میں دانا وہی ہے جو غیروں کے میدان میں اپنے لٸے کھیلے۔ دوسروں کے میدان میں دوسروں کےلٸے نہ کھیلے۔سوشل میڈیا کے فواٸد میں سے ایک بہترین فاٸدہ یہ ہے کہ آپ اسے تربیت گاہ میں بدل سکتے ہیں۔ کمپیوٹر آنے والی نسلوں کو تربیت دے گا. اس حقیقت سے کوٸی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا ۔ فلم ،کارٹون، ڈرامے اور گیمز یہ سب اسی بات پر دلیل ہیں۔ اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہمارے بچے کی تربیت کس قسم کے ڈراموں، فلموں اور گیموں کے ذریعے ہو۔ آج کل فلموں و ڈراموں کے ذریعے ہی بہتر تبلیغ ممکن ہے۔مختلف اسلامی گیمز بھی بچوں کے لٸے آچکی ہیں۔ ان کی تشخیص کے ساتھ اسلامی تربیتی و اخلاقی چیزوں کو بچوں کے لٸے مہیا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
اپنی اولادوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ البتہ لاپرواٸی کٸے بغیر برے چیزوں سے بچا کر اچھی چیزوں کو مہیا کر کے دینا ممکن ہی نہیں بلکہ آسان بھی ہے۔
سوشل میڈیا بہت سے علوم کے سیکھنے اور سکھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اپنا جاٸزہ لینے کی ضرورت ہے آیا میں نے سوشل میڈیا کو پیسوں اور وقت کی بربادی کا ذریعہ بنایا یا کچھ سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ س حقیقت سے انکار نہیں کہ سوشل میڈیا کماٸی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔جو افراد سوشل میڈیا کے ہدف دار استعمال کے قاٸل ہیں ان کے لٸے کھلا میدان اور بےشمار راستے موجود ہیں جیسے مختلف کلاسیں لینے کے علاوہ یوٹیوب پر اچھے مواد اپلوڈ کرنا۔ مگر بدقسمتی سے اس طرف بہت کم لوگ متوجہ ہیں۔
اسکے ساتھ سوشل میڈیا کے نقصانات بھی بہت ہیں ۔ان میں سے چند اہم نقصانات کا ہم یہاں مختصر ذکر کرتے ہیں۔ دنیا میں فیس بک کا استعمال سب سے ذیادہ ہے۔اس وقت ایک ارب سے زائد افراد فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔ فیس بک کے بارے میں پہلے یہ معروف تھا کہ آپ کچھ بھی اپلوڈ کرسکتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں۔ اب انتہاٸی احتیاط کے باوجود کٸی پوسٹ انتباہ کے ساتھ فیس بک انتظامیہ ہٹاچکی ہے۔
انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ وقت ہے۔ وقت ہی کے مجموعے سے زندگی بنتی ہے۔ وقت کو ضاٸع کرنے کا مطلب ہے زندگی کو ضاٸع کرنا۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ کوٸی سوشل میڈیا پہ وقت ضاٸع کرئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پیسہ دے کر اپنا وقت ضاٸع کر رہا ہے۔ یہ نقصان ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو سوشل میڈیا نہیں چلاتے بلکہ سوشل میڈیا ان کو چلاتی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پہ سوار نہیں بلکہ سوشل میڈیا ان پر سوار ہے۔ یہ انتہاٸی خطرناک بات ہے۔
جن کا کوٸی ہم فکر ہم نظر دوست احباب نہ ہو فیس بک پر ہزاروں دوست بناتے ہیں ,سوشل میڈیا پروپیگنڈہ اور شخصیت کو مسخ کرنے کے ساتھ شخصیت پرستی و خود پسندی کا ذریعہ بھی ہے۔ سوشل میڈیا فقط عقاٸد و نظریات کی قتل گاہ ہے
اس وقت سوشل میڈیا غیر اخلاقی مواد سے لبریز ہے ۔ موباٸل اب ارتباطی وسیلے کے علاوہ منی سینما میں بدل گیا ہے۔ مضبوط گھر کی چاردیواری اور تنہا کمرے میں ہوکر بھی کوٸی کمرے میں نہ محفوظ ہوتا ہے نہ تنہا ہوتا ہے ۔ ایسے میں بچوں اور بچیوں کو راتوں میں موباٸل سے دور رکھنے اور بہترین تربیت دینے کے علاوہ اس دلدل سے محفوظ رکھنے کا کوٸی اور وسیلہ نہیں ۔
بےشک سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوٸی انکار نہیں کرسکتا۔ فرد یا معاشرے کو بگاڑنے اور سنوارنے میں اس کا بنیادی کردار ہے ۔اس کے درست استعمال کے لٸے اسے باقاعدہ سیکھنا اور تربیت لینا ضروری ہے۔