.محرم الحرام کا مہینہ ہمیں رشتہ اخوت اور بھائی چارے کی بنیادیں مضبوط بنانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کے سنہری اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ محرم الحرام کے تقدس کو تمام مکاتب فکر کے مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ ہر شہری کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے جو دوسرے مسلمان بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے اور ان کی دل آزاری کرے۔ قوم کی صفوں میں اتحاد و ہم آہنگی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے پیروکاروں کی طرف سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہوا دینے سے ملکی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ مسلم امہ کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے مترادف ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے تیسرے پارے میں فرمایا ہے کہ ”اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔“ اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر پوری طرح کاربند رہیں اور آپس میں اتفاق سے رہیں تاکہ وہ ایک مضبوط اور باوقار ملت بن سکیں۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے طاغوتی طاقتوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے سینہ سپر ہوگئے۔انہوں نے دنیاوی لالچ و طمع کے حربوں کو ٹھکراتے ہوئے خالصتاً اللہ کی خوشنودی اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی اور اپنے جاں نثار ساتھیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کربلا کا واقعہ تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے جو اس بات کا درس دیتا ہے کہ کبھی بھی اسلامی روایات کے منافی کام کرنے والے حکمرانوں کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے بلکہ نعرہ حق بلند کرنا چاہیے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل عرب کو دین اسلام کی دعوت دی جس کی بنیاد حق و انصاف، مساوات، صداقت اور باہمی ہم آہنگی پر ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو پیار و محبت، اخوت و بھائی چارے، اتحاد و اتفاق اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ بلکہ یہ دنیا کا پہلا دین ہے جو گروہ بندی، برادری ازم، رنگ و نسل کی نفی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اتحاد و اتفاق، باہمی ہم آہنگی اور اخوت و بھائی چارے کی مضبوط رسی کو تھام کر پوری دنیا کو پیار و محبت سے تسخیر کیا اور وہ ناقابل شکست قوم بن کر ابھری۔ نزول قرآن کو صدیاں بیت چکی ہیں مگر آج تک اس کی ”زیر“ اور ”زبر“ میں بھی تبدیلی نہیں کی جا سکی جو کہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ خداوند قدوس نے اس کی حفاظت اور اس کی اصلیت کو برقرار رکھنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ جب انسان اس کی تلاوت کرتا ہے تو سخت سے سخت دل بھی پسیج جاتا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کی شکل میں ایک آزاد مملکت حاصل کی۔ مسلمانوں نے اپنے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک قوم کی حیثیت سے جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس وقت نہ کوئی شیعہ تھا نہ کوئی سنی۔ جب مسلمان انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آ رہے تھے تو ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اگر یہ شیعہ ہے تو چھوڑ دو یا سنی، بریلوی، دیوبندی یا اہلحدیث ہے تو اسے چھوڑ دو۔ بلکہ انہوں نے سب کو مسلمان ہونے کی سزا دی۔ جب پاکستان حاصل کرتے وقت ایسا کوئی اختلاف نہیں تھا تو اب کیوں؟ خدا کرے کہ ہم ایک ہو جائیں۔ اسی میں ہماری بھلائی اور سلامتی مضمر ہے۔ قائد اعظمؒ نے ہمیں تین سنہری اصول اتحاد، ایمان اور یقین محکم دیئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان اصولوں کی پاسداری کریں اور ملک کی خوشحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان ایک انتہائی حساس خطہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اندرونی و بیرونی خطرات کے پیش نظر ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کرنا چاہیے۔ اسلام میں مذہبی راہنماؤں کے کردار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے لوگوں میں امن و امان کی صورتحال اور بھائی چارے کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں۔
محرم الحرام کے مقدس ایام میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے وقت ہم سب کوایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور عبادت کا احترام کرنا ہوگا .محرم الحرام کے دوارن اگرکوئی بھی فرد سوشل میڈیا , فیس بک ،ٹویٹر،انسٹاگرام،واٹس ایپ سمیت دیگر ٹولز کے زریعے اگر مذہبی منافرت والی کوئی بھی پوسٹ کرتا ہے ,یاکمنٹ کرتا ہے یا پھر شیئر کرتا ہے اسےجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے گا,مسلمانوں کی اکثریت آج کل سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے۔ رویوں کی بے باکی، بے ہنگم پیغامات اس بات کی عکاس ہے کہ ایسے میں قرآن کے آفاقی اصولوں سے رہنمائی لی جا سکے وقت کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی کو صحیح سمت عطا کرنے میں مددگار بنیں۔ قرآن کہتا ہے (افحسبتم انما خلقناکم عبثا) کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث و بے مقصد خلق کیا ہے۔ طرز تخاطب سے ایسا لگتا ہے کہ انسان، زندگی کے کسی بھی موڑ پر بھی بے مقصدیت کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنی زندگی ایک مقصد کے تحت گزارے۔ تمام تر آلات کا استعمال طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے کرے۔ سوشل میڈیا بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہے۔سوشل میڈیا کو وقت دینے کا ایک عقلائی مقصد، ایک مضبوط لاجیک و دلیل ہونی چاہیے۔ دوسری صورت میں یہ سوشل میڈیا زندگی کو بے معنی کر سکتا ہے اور انجانے میں ہماری باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوگی۔
قرآن نے ہمیں تعقل و تدبر و تفکر کی دعوت دی ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات کوشیئر کرنے سے پہلے ضرور سوچیں کہ یہ پوسٹ کس مقصد کے تحت لکھی گئی ہے؟ اس کے ذی نفع (بینیفشری) کون ہیں اور اسے میں آگے کیوں شیئر کروں۔ وقت کی قدر اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارا قیمتی وقت بہت سی چیزیں چوری کر کے لے جاتی ہیں۔ ایک یہی سوشل میڈیا ہے۔قرآن کہتا ہے کہ زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے۔ زمانہ یا عصر، یہی وقت ہی تو ہے جسے انسان لٹا کر خسارہ کما رہا ہے۔ اس لیے اپنے ہر منٹ کے استعمال پر توجہ دیجیے کہ وہ کس لیے سوشل میڈیا کی نذر ہو رہا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر اپنی زندگی اور وقت لٹانے کے بدلے کیا مل رہا ہے۔اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ میں جس پوسٹ کو آگے فارورڈ کر رہا ہوں، ممکن ہے میری وجہ سے ہزاروں آدمیوں کا وقت برباد ہو، تو کیا یہ پوسٹ واقعی اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ اس سے ہزاروں لوگوں کا وقت لیا جائے؟قرآنی دستور ہے کہ اپنے مخالفین کے خلاف بات کرتے وقت بھی عدل و انصاف سے کام لو۔ (لا یجرمنکم شنآن قوم علی ان لا تعدلو، اعدلوا) سوشل میڈیا فکری بحث اور گفتگو کا ذریعہ ہے۔ مخالف چاہے سیاسی، مذہبی، فکری، قومیتی کسی بھی روپ میں ہو انسان کی نفسیات جلد اس کے خلاف بات کو قبول کرتی ہیں۔ اس لیے اپنے مخالفین کے خلاف پوسٹ کرتے وقت بہت زیادہ سوچیں۔مومی طور پر دوران گفتگو، کمنٹ کرتے وقت، کسی بھی پوسٹ کو پھیلاتے وقت، غرض کسی بھی مرحلے میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائےرآن کہتا ہے کہ علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے برابر نہیں ہیں۔ ہمیں علم و آگہی کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے۔ یہ کہ کون سی پوسٹ کے ڈانڈے کہاں مل رہے ہیں۔ کون سی پوسٹ کس ڈسکورس کو تقویت دے رہی ہے۔ کس کے حق میں اور کس غرض سے بنائی گئی ہے۔ ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر، آگاہانہ انتخاب کے بعد ہی اسے پھیلانے کی سوچیں۔قرآن کہتا ہے (لا تجعلنی مع القوم الظالمین) یعنی اے پروردگار مجھے ظالم قوم کے ساتھ قرار نہ دے۔
کسی بھی پوسٹ کو شیئر کرتے وقت دیکھنا چاہیے کہ اس سے کسی پر ظلم و ستم کا پہلو تو نہیں نکلتا۔
کسی ظلم کو تقویت تو نہیں مل رہی۔ کسی ظالم کا ساتھ تو نہیں دیا جا رہا۔ ہمیں ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ اور مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے۔
ظلم البتہ فقط معیشت و اقتصاد میں خلاصہ نہیں ہوتا، کسی پر تہمت، الزام، جھوٹ، کسی کے خلاف نفرت پھیلانا، کسی کا امن و سکون اجاڑنا سب ظلم ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ (لا تقف ما لیس لک بہ علم)
ایسی چیز کے پیچھے مت جاؤ جس کا تجھے علم و اطمینان نہیں ہے۔
آج ہم ہزاروں ایسی پوسٹیں دیکھتے ہیں جن کے پیچھے محض گمان اور خیال کارفرما ہیں۔ نہ آگے کی خبر نہ پیچھے کا پتہ۔ بس جہاں سے جو چیز ملی اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کر دیا۔یہ طریقہ اسلامی نہیں ہے۔ اسلام فقط علم و اطمینان کی ثقافت کا خواہاں ہے۔ اسے وہم و گمان، تخمین و اندازہ گیری، محض خیالات و اوہام کے پھیلانے سے شدید گریز ہے۔ اس بارے میں مذمتی الفاظ کافی زیادہ ہیں۔ قرآن نے فرمایا۔ گمان کسی حق و حقیقت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ وہ (کافر ) فقط گمان ہی کرتے ہیں اور اندازے لگاتے رہتے ہیں۔ گمان پر ترتیب اثر دینے والے معاشرے پراکندگی، ذہنی تشویش، تذبذب، استقامت کی قلت اور ارادوں کی کمزوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں علم و آگہی ہے، جو مضبوط دلائل و شواہد سے حاصل ہوتی ہے۔رآن بن سوچے تقلید کا مخالف ہے۔ اپنے آباء و اجداد سے لیکر، دوستوں، ہم نشین ساتھیوں اور کلاس فیلوز، غرض تمام حلقہ احباب تک سب کی آراء سے متعلق مستقل سطح پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔
قرآن میں قیامت کے ایسے مناظر کی بھی عکاسی موجود ہے جہاں دوست ایک دوسرے کو ڈانٹیں گے کہ ہم نے تمہاری پیروی کی۔ کوئی کہے گا (یا لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلا) اے کاش فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
کوئی کہے گا (انا اطعنا سادتنا و کبرائنا فاضلونا السبیلا) ہم نے تو اپنے بڑے بڑوں کی مان لی تھی، جو ہمیں غلط راستے پر لے گئے۔ ہمیں سوشل میڈیا پر واقعی خیال رکھنا چاہیے کہ کس کے زیر اثر جا رہے ہیں۔ اپنی سوچ کے مستقل استعمال پر کبھی پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ اپنی افسار فہم کسی کے ہاتھ نہیں دینی چاہیے۔تقلید کے مقابلے میں اسوہ حسنہ یعنی رول ماڈل اپنانے کا درس ہے۔ آج ہمیں بہترین رول ماڈلز کی ضرورت ہے۔ جو اخلاقی، سماجی، معیشتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں عملی سطح پر کارکردگی دکھا کر اپنا امتحان زندگی پاس کر چکے ہوں۔ اگر ایسے ماڈلز نہیں ہیں تو پھر خود ہمیں ماڈل بننا ہو گا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسا ممکن ہے۔رآن اخلاقی برائیوں سے دوری کا خواہاں ہے۔ انہیں پھیلانا تو دور کی بات۔ سوشل میڈیا کا ایک استعمال منافی عفت فحش مواد پھیلانا ہے۔ اس سے مکمل دوری اختیار کرنی چاہیے۔ (والذین یحبون ان تشیع الفاحشہ فی الذین آمنوا لہم عذاب الیم) ۔ جو لوگ اسلامی سماج میں فحشاء پھیلانے کے خواہاں ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ بھلا اس سے دردناک عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ
بھلا اس سے دردناک عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ انسان معاشرے کا مفید فرد بننے کے بجائے ایک ناکارہ عضو بن کر رہ جاتا ہے۔ البتہ آخرت کا دردناک عذاب اپنی جگہ باقی ہے۔قرآن نے فرمایا، قولوا قولا سدیدا۔ ایسی بات کرو جو چٹان کی طرح مضبوط ہو۔ دلائل سے سرشار مضبوط بات کو سوشل میڈیا کی زینت بنانا مسلمانی شیوہ ہے۔ آج ہمیں ہر قسم کی بے دلیل پروپیگنڈا مہم اور بے بنیاد پوسٹیں فراوان دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
ہمیں اس شیوے سے گریز اختیار کر کے صرف اور صرف مضبوط دلیل کے ساتھ مدعا پیش کرنا چاہیے۔
فاصفح الصفح الجمیل۔ اچھے طریقے سے چشم پوشی کر لو۔
اعرض عنہم و توکل علی اللہ۔ منہ پھیر کر اللہ پر بھروسا کرو۔
کسی اپنے پرائے کا سخت کامنٹ، کوئی ناگوار بات، کسی کی غلطی، تنگ نظری یا کج روی کا جواب اسی جیسے طریقے سے نہ دے کر اچھے طریقے سے منہ موڑ کر سکوت اختیار کرنا یہ سوشل میڈیا کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ جواب در جواب اور بات پر بات، جملے پر جملہ کسنے کی وجہ سے طرفین اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں اگر ایک آدمی شعوری بالادستی کا مظاہر کر کے اس رویے پر سکوت اختیار کرے، تو یہ دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ امید ہے کہ ان رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لا سکیں گے۔
اس کے علاوہ حکومت نے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو اختیارات سونپ دیئے، مذہبی منافرت پھیلانے پر سی ٹی ڈی مقدمات درج کرے گی، سی ٹی ڈی نےاحکامات کے بعد مقدمات کا اندراج شروع کر دیاہے ، سی ٹی ڈی دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی کرے گی۔سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے پہلے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کارروائی کرتا تھا تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جا سکے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ایسے ہزاروں پیجیز چل رہے تھے۔تاہم پولیس کی جانب سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سی ٹی ڈی کو اختیارات دینے کی استدعا کی گئی جس کو حکومت نے منظور کر لیا۔ سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف سی ٹی ڈی مقدمات درج کرئے گی۔ سی ٹی ڈی نے حکومتی احکامات کے بعد مقدمات کا اندراج شروع کر دیا۔ حکومت نے سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو روکنے کے لیے سی ٹی ڈی کو اختیارات دینے کی منظوری دی ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں محرم الحرام کے دوران فرقہ واریت پر کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے،
فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ گروپس میں فرقہ واریت عروج پررہی ہےجبکہ سوشل میڈیا پر ایکشن لینے کا اعلان بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ کوئی خاطر خواہ اقدامات دیکھائی نہ دیئے پولیس نے بھی 130 لنکس کو بند کرانے کی استدعا کی حکومت کی جانب سے دو سو اٹھارہ پیجیز بلاک کیے گئے۔