انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 3ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔جون میں جاری کیے گئے پہلے شیڈول میں پاکستان ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، جس سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ آئی ایم ایف 30 جون کو ختم ہونے والے سابقہ پروگرام کے تحت فنڈز جاری نہیں کرے گا۔
تاہم 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان نے ملک کے معاشی بحران کو کم کرنے کے لیے عملے کی سطح پر 3 ارب ڈالر اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا۔
اس معاہدے کا پاکستان کو طویل عرصے سے انتظار تھا جس کی ڈولتی معیشت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کررہی تھی۔
تقریباً 9 ماہ کی تاخیر کے بعد ہوا یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملے گی۔
9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے، کیوں کہ ملک 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا، جس کی میعاد گزشتہ ماہ ختم ہو گئی تھی۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے منظوری کے بعد 1.2ارب ڈالر فوری طور پر جاری کردیے جائیں گے۔
وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد کہا کہ ’اللہ کا شکر ہے چیزیں درست سمت پر جا رہی ہیں، جس کے لیے ہم کئی مہینوں سے کوشش کر رہے تھے اور مشکل مذاکرات تھے‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہمار 2019 اور 2022 والا پروگرام جو ایک سال وسیع ہوا، اس میں ہمیں نویں جائزے کے لیے 1.9 ارب کا توقع کر رہے تھے، باقی ختم ہوجانا تھا تو آخر میں ہماری زیادہ توانائی خرچ ہوئیں وہ اسی پر ہوئیں کہ اگر ہم انتظامات کریں جو ڈھائی ارب بچا ہے اور اس میں آئی ایم ایف ملا دے اور اسٹینڈ بائی معاہدہ کرے تو اس میں ہمیں کامیابی ہوئی اور ٹیکسز بھی بڑھانے پڑے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے مالی اصلاحات کرنی تھی اور 3 سے 4 سال سے ہمارا پروگرام التوا کا شکار تھا اور 4 بڑے اہم اقدامات پچھلے چند برسوں میں نہیں ہوئے تھے اور جب میں نے ذمہ داری سنبھالی تو میں نے کرلیے تھے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب نے ساتویں جائزے کے وقت کہا تھا کہ دو ارب تک مدد کریں گے اور متحدہ عرب امارات نے بھی کہا تھا کہ ہم مدد کریں گے تو یہ 8 سے 9 مہینے پرانے وعدے تھے اور ابھی انہوں نے اس کو دوبارہ تازہ کیا تھا‘۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا دورہ کیا تھا جہاں میں ان کے ساتھ تھا اور ان تمام ممالک میں ہم نے معاملات اٹھائے تھے‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میری کوشش ہے کہ اس حکومت کی مدت مکمل ہونے تک، ممکنہ طور پر جولائی کے اختتام تک قومی ذخائر 14 سے 15 ارب ڈالر کے درمیان ہوں، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 5.2 یا 5.3 ارب نکال دیں تو 9 سے پونے 9.975 ہوں گے تو ہم 14 سے 15 کے درمیان ہوں گے‘۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 9ماہ کے لیے 3ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری دے دی ہے تاکہ پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کو سپورٹ کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں کہا گیا کہ یہ اس معاہدے کا انتظام ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب پاکستانی معیشت مشکل حالات سے گزر رہی ہے، مشکل بیرونی ماحول، تباہ کن سیلاب اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے بڑے مالی اور بیرونی خسارے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زرمبادلیہ کے ذخائر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
گزشتہ ماہ ہونے والے اس معاہدے کے لیے پہلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری درکار تھی اور اب پاکستان کو 1.2ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کردی جائے گی جبکہ بقیہ دو اقساط سہ ماہی بنیادوں پر دو جائزوں کے بعد جاری کی جائیں گی
اس سے پہلے اسلام آباد کے شاہین چوک فلائی اوور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے یقین ہے کہ حج کے لیے تشریف لے جانے والے ہمارے دوسرے ہزاروں اور لاکھوں بھائیوں کی طرح رانا ثنااللہ نے بھی اخلاص کے ساتھ دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو آئی ایم ایف کے امتحان سے نکالا۔ اس پروگرام کی مکمل اجازت ملے گی اور پاکستان پھر ایک اعتماد اور یقین کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس پروگرام کی مکمل اجازت سے پاکستان پھر ایک اعتماد اور یقین کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہمارے لیے کوئی حلوہ اور کھیر نہیں ہے بلکہ یہ ایک بڑا سخت پروگرام ہے، جس کو ہم نے مجبوراً اپنایا، پچھلی حکومت نے اپنے آخری ایام میں ریاست کو داؤ پر لگایا اور سیاست کو بچانے کے لیے ایک انتہائی گھمبیر حرکت کی جس نے پاکستان کی معیشت کی چولیں ہلادیں، ہم نے سیاست کو داؤ پر لگایا اور ریاست بچایا۔
انہوں نے کہا کہ یہی فرق ہے نواز شریف کی سیاست اور اس پی ٹی آئی کے عمران نیازی کا، جو پاکستان مخالفت اور پاکستان دشمنی پر اترے ہوئے ہیں جبکہ نواز شریف نے اپنی سیاست کو داؤ پر لگادیا اور پروا نہیں کی، اتحادی حکومت کے زعما نے اپنی سیاست داؤ پر لگادی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری اجتماعی کاوشوں اور خلوص نیت کی بدولت پاکستان کی ریاست بچ گئی ہے اور اب جو ایک پروگرام بنا ہے، جس کو میں سادہ الفاظ میں پاکستان کی معاشی ترقی کا پروگرام کہتا ہوں، معاشی ترقی کی بحالی کا پروگرام سامنے آچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان، صوبائی حکومتیں، تمام ادارے، افواج پاکستان اور پوری حکومت اس پروگرام میں شریک ہیں، اس پروگرام کی بدولت پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے گا، اس میں زراعت کی بحالی بلکہ ترقی اور خوش حالی ہے، معدنیات، ٹیکسٹائل برآمدات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت یا شعبے میں ملک کے نوجوانوں بچیاں بچیاں اس پروگرام کو لے کر آگے چلیں گے تو پاکستان آج جو قرضوں کے پہاڑ میں دبا ہوا ہے، نہ صرف اس میں سے نکل آئے گا بلکہ پاکستان نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ عالمی افق پر ایک مضبوط اور طاقت ور ملک بن کر نکلے گا، اس کے لیے ہمیں ایک کمی پوری کرنی ہے، ہمت اور جواں جذبے اجاگر کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے عمران نیازی نے سوا سال میں پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے جو ملک دشمنی کی ہے، اس کی مثالیں سامنے ہیں، یہ کس نے کہا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دو صوبوں کے وزرائے خزانہ کو کہ آپ نے آئی ایم ایف کے نام خط جاری نہیں کرنے کہ پروگرام مکمل نہ ہو اور ناکام ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کس نے کہا تھا پاکستان خدانخواستہ سری لنکا بننے جا رہا ہے، سری لنکا کے صدر پیرس میں موسمیاتی تبدیلی میں آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کو یہ پیغام دیتے ہیں پاکستان ہمارا ایک دوست ملک ہے اور سری لنکا نے ڈیفالٹ ہونے کے بعد جو تباہی دیکھی میں نہیں چاہتا کہ پاکستان اس تباہ کن راستے سے گزرنا کا بھی سوچے لہٰذا پاکستان کی پوری مدد کریں، یہ میرے سامنے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی یہاں پر بیٹھے اپنے جتھے کے ساتھ دن رات کوشش کر رہے تھے، بد دعائیں دے رہے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے جگہ جگہ جا کر ادھار مانگ رہے ہیں، آئی ایم ایف کی منتیں کر رہے ہیں، زندگی بسر کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے، اصل آزادی وہی ہے جو معاشی آزادی ہے، 70 کی دہائی میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے زیادہ تھی، ہماری جی ڈی پی ان سے زیادہ تھی، آج چین کہاں اور ہم کہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین ہمارا بہت اچھا دوست ہے، مشکل کی اس گھڑی میں جس طرح سے چین نے ہمارا ہاتھ تھاما، نہ میں ان کا شکریہ ادا کرسکتا ہوں، ان کو محسوس ہوگیا تھا کہ پاکستان بہت خطرے میں ہے تو انہوں نے ایک دوست کی طرح ہمارا ہاتھ تھاما اور گزشتہ 3 ماہ میں انہوں نے ہمیں 5 ارب ڈالر واپس کیے، سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر خزانے میں جمع کرائے، ایک ارب ڈالر یو اے ای سے بھی ایک آدھ دن میں پہنچ جائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ان کے شکر گزار ہیں لیکن یہ زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں ہے، ہمیں اس کو بدلنا ہوگا، اس کو بدلنے کا راستہ تعلیم کا راستہ ہے جس میں زراعت، سائنس اور معدنیات سمیت دیگر شعبے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے لیے خام مال کی بہتات ہے، اربوں ڈالر کی معدنیات یہاں موجود ہیں جنہیں برآمد کرکے ہم خوشحالی لاسکتے ہیں لیکن اربوں روپے کی فیسیں ہم نے ان معدنیات کے مقدمات پر خرچ کر دی ہیں اور قرضوں پر چلنے والے ملک نے ایک دھیلے کا منافع بھی ان سے نہیں کمایا، 75 سال سے ہم مثالیں دیتے آرہے ہیں لیکن عمل کہیں نظر نہیں آیا، اگر ہم عملی کام کریں تو آنے والی نسلیں ہمیں دعائیں دیں گی ورنہ بد دعائیں ہی دیتی رہیں گی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، ہم پاکستان کو عظیم ملک بنائیں گے، ملک کی لاکھوں بچیاں کم وسائل کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، وظائف کے لیے کم ترقی یافتہ علاقوں پر توجہ دی جائے، امید ہے پاکستانی قوم جلد دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوم بن کر ابھرے گی۔