افواج پاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے عظیم افکار کے مطابق دفاع وطن اورعالمی امن کی خاطرقربانیوں کے لیےہمہ وقت تیار رہتی ہے
اسی لیے عالمی برادری پاکستانی افواج کی کاوشوں کو تسلیم کرتی ہے۔
علامہ محمد اقبال نے انسان کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے دفاع کے لیے تیار رہنے کی دعوت دی دفاع انفرادی اور اجتماعی طور پر ضروری ہے کسی بھی ریاست کا استحکام اس کے مضبوط دفاع پر منحصر ہے علامہ محمد اقبال ایک مفکر کی طرح سوچتے تھے اور ایک مجاہد کی طرح عمل کرنے کی دعوت دیتے رہے ۔ کیونکہ انسان اللہ کا نائب، اللہ کا خلیفہ، اللہ کا نمائندہ، اللہ کا بازو اور اللہ کی آواز ہے۔
اسلامی جذبوں کے عظیم شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں۔
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے;یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے اُن کا نظریۂ قومیت ہو یا وطنیت وہ مضبوط و مربوط سرحدی اور نظریاتی سرحدوں کے امین ٹھہرے۔
اقبال کا خیال ہے کہ کائنات انسان کے لیے ہے ، انسان کائنات کے لیے نہیں ۔ اُسے تسخیر کائنات کا فریضہ سونپا گیا ہےپاکستان کی مسلح افواج کو بہترین منظم ادارے تصور کیا جاتا ہے اور دنیا میں بہت احترام کیا جاتا ہے کیونکہ ملک کے اندر پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں لیکن وہ عالمی امن اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے پاک فوج نے ریاست کو متحد رکھنے، قومیت کے احساس کو فروغ دینے اور بے لوث خدمات کا گڑھ فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی امن دستوں کی کارکردگی کو اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے دنیا بھر میں تسلیم کیا ہے. اس وقت بھی پاک فوج کے 8200 سے زائد دستے مختلف غیر مستحکم ممالک میں مختلف امن مشنز میں مصروف ہیں۔
اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا گیاہے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پیس کیپنگ ٹریننگ سینٹر کی 28ویں سالانہ کانفرنس کے شرکاء نے عالمی امن کے لیے پاکستان کی مسلسل کوششوں کو سراہا ہے۔سالانہ کانفرنس کے شرکاء نے اس تعریف کا اظہار انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پیس کیپنگ ٹریننگ سینٹر کی 28ویں سالانہ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں کیا جوسنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی، نسٹ، اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوئی۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے عالمی امن و استحکام مرکز کی نئی عمارت کے افتتاح کے ساتھ کیا۔ ڈپارٹمنٹ آف پیس آپریشنز کے انڈر سیکرٹری جنرل، جین پیئر لاکروکس، اقوام متحدہ کے پولیس مشیر، قائم مقام ڈپٹی ملٹری ایڈوائزراور دیگر اعلیٰ حکام بھی کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شریک تھے۔
کلیدی خطاب میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی امن کو ابھرتے ہوئے خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی جانب سے امن قائم کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود بے گناہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حالت زار واضح یاد دہانی کراتی ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مہمان خصوصی جین پیئر لاکروکس نے اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا اور کانفرنس کی میزبانی پر پاکستان کی تعریف کی۔ اس سے قبل نسٹ آمد پر آرمی چیف کا استقبال انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن لیفٹیننٹ جنرل فیاض حسین شاہ نے کیا۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کاکہناتھاکہ معصوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کےحالات بہت کچھ کرنےکاپیغام دیتےہیں
آئی ایس پی آرکےمطابق انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پیس کیپنگ ٹریننگ سینٹر آئی اے پی ٹی سی کی28ویں سالانہ کانفرنس پاکستان میں پہلی بارسینٹرفارانٹرنیشنل پیس اینڈاسٹیبلیٹی نسٹ اسلام آبادمیں4سے8نومبر تک جارہی ،آرمی چیف نےاپنےخطاب میں کہناتھاکہ آج عالمی امن کوابھرتےہوئےخطرات اورچیلنجزکاسامنا ہے،
اقوام متحدہ اوردیگرتنظیموں کی جانب سےامن قائم کرنےکی متعددکوششوں کے باوجودمعصوم کشمیریوں اورفلسطینیوں کی حالت زارایک واضح یاددہانی کاکام کرتی ہےکہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمد علی نے اختتامی تقریب کی صدارت کی۔ انہوں نے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پیس کیپنگ ٹریننگ سینٹر سیکرٹریٹ، پینلسٹس، شرکاء اور سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے امن آپریشنز کے لیے اڈاپٹیو ٹریننگ سٹریٹیجیز پر ایک نتیجہ خیز اور کامیاب ہفتہ بھر کانفرنس منعقد کی۔ اختتامی سیشن میں، مندوبین کو کانفرنس کے دوران سامنے آنے والے نتیجہ خیز بات چیت، اختراعی خیالات اور مجوزہ اقدامات کے نتائج سے آگاہ کیا گیا۔ تربیت کے جدید طریقہ کار، ٹیکنالوجی کے انضمام کو بڑھانے، امن کے قیام میں خواتین کی شرکت کو بااختیار بنانے اور معلومات کی سالمیت کی اہمیت پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ کانفرنس نے قیام امن کے لیے ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پیس کیپنگ ٹریننگ سینٹر کے سابق صدر، بریگیڈیئر جنرل جوائس (کینیا) نے باضابطہ طور پر پرنسپل نسٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز راجہ آفتاب خان کو صدارت سونپ دی۔ کانفرنس نے مستقبل کے اقدامات کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے، جس سے دنیا بھر میں امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کے پاکستان کے عزم کو تقویت ملی ہے۔ یاد رکھیں 1945 کو اقوام متحدہ اس وقت وجود میں آیا جب سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے اس کے چارٹر کی توثیق کی یہ 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اعلان کے بعد ہوا جس نے 29 مئی کو اقوام متحدہ کے دن کے طور پر نامزد کیااور یہ اعلان کیا کہ یہ دن لوگوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور کامیابیوں سے آگاہ کرنے اور اس کے کام کے لئے ان کی حمایت حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اس کے قیام کے بعد، پاکستان نے اقوام متحدہ کے رکن کے طور پر دنیا کے مختلف خطوں میں فعال سفارتی، اخلاقی اور مادی حمایت کے ذریعے امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذا یہ دن جنگ اور امن کے دوران اقوام متحدہ کے قیام امن کے اقدامات میں پاکستان کی مسلح افواج کے تعاون کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان کی دنیا میں سب سے زیادہ فوجی امداد دینے والے ممالک میں سے ایک کے طور پر امن فوجیوں کی سب سے زیادہ شہا دتوں کی تعداد عالمی امن کے عظیم مقصد کو فروغ دینے کے لیے اس کے عزم اور کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا کے تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں امن کا حصول آسان نہیں تاہم پاک فوج کی تاریخ قربانیوں، انسانیت کی خدمات اور انسانی خوشحالی کے لیے اجتماعی سلامتی کو فروغ دینے سے بھری پڑی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کی امن فوج میں ایک بڑا اہم کردار ہے پاکستان نے 30 ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ میں شمولیت اختیار کی 1960 سے یہ اقوام متحدہ کے زیادہ تر امن مشنوں میں سرگرم عمل رہا ہے پاک فوج کا سب سے بڑا تعاون کانگو، لائبیریا، صومالیہ، آئیوری کوسٹ، ویسٹرن صحارا، سیرالیون، بوسنیا، کوسوو، جارجیا، مشرقی تیمور ہیٹی سمیت دیگر میں رہا ہے۔ اس وقت بھی پاک فوج کے 8200 سے زائد دستے مختلف غیر مستحکم ممالک میں مختلف امن مشنز میں مصروف ہیں۔ پاکستانی امن دستوں کی کارکردگی کو اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے دنیا بھر میں تسلیم کیا ہے۔ پاکستانی افواج کی ناقابل تردید پیشہ ورانہ حیثیت نے انہیں اقوام متحدہ کے ہر امن مشن میں سیکرٹری جنرل کے ہر خصوصی نمائندے اور فورس کمانڈر کا جذبہ بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں، اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کی لگن کا اعتراف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کیا ہے جنہوں نے خود پاکستان کا دورہ کیا اور 13 اگست 2013 کو سنٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی کا افتتاح کیا اور اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔ مغربی ایران کی ولندیزی حکمرانی سے انڈونیشیا میں منتقلی کے دوران جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور اس کی نگرانی کے لیے پاکستان نے 3 اکتوبر 1962 سے 30 اپریل 1963 تک 1500 پیادہ دستوں کا تعاون کیا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں واحد مثال جب اقوام متحدہ کی فورس چلی گئی تھی انڈونیشیا میں پاکستان کا فوجی دستہ نےاپنا کردار ایمانداری سے ادا کیا اس کے علاوہ، پاکستان نے جنوری سے ستمبر 1964 تک اقوام متحدہ کے یمن آبزرور مشن میں فوجی مبصر کے طور پر حصہ لیا۔ یمن 1962 میں خانہ جنگی کی حالت میں داخل ہوا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ تنازع عالمی واقعے کی شکل اختیار نہ کر لے، اقوام متحدہ اپنا یمن آبزرویشن مشن قائم کیا۔ اور، نمیبیا میں اقوام متحدہ کے ٹرانزیشن اسسٹنس گروپ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کی مدد کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے نمیبیا کی جلد آزادی کو یقینی بنایا جا سکے، اور متعدد دیگر فرائض کی انجام دہی کے لیے۔ اس مقصد کے لیے نمیبیا میں یکم اپریل 1989 سے 21 مارچ 1990 تک پاک فوج کے 20 فوجی مبصرین نے اپنے فرائض سرانجام دیے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاک فوج نے مشرق وسطیٰ میں مثبت کردار ادا کیا، اور امن کی بحالی کے لیے سب سے آگے تھی۔ اقوام متحدہ کا عراق-کویت مبصر مشن اپریل 1991 میں کویت سے عراقی افواج کے جبری انخلاء کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ اس کا کام عراق-کویت سرحد کے ساتھ غیر فوجی زون کی نگرانی کرنا اور سرحدی خلاف ورزیوں کو روکنا تھا۔ پاکستانی افواج جنہوں نے اپریل 1991 سے 2003 تک وہاں اپنی خدمات جاری رکھنے میں مدد کی انہیں کویت شہر کے شمال میں سب سے مشکل علاقہ تفویض کیا گیا بوبیان جزیرے کی بحالی بھی پاک فوج کے سپرد کی گئی۔ آپریشن پاک فوج کے انجینئرز کی ٹاسک فورس نے کیا اس فورس کی پیشہ ورانہ مہارت اور لگن کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ کمبوڈیا پر اقوام متحدہ کی عبوری اتھارٹی کا حصہ رہتے ہوئے، پاکستان کی فوجی افواج نے مئی 1992 سے اگست 1993 تک انتہائی دور افتادہ علاقوں میں امن کی کارروائیاں انجام دیں مشکلات سے نبردآزما ہوتے ہوئے انہوں نے ایک کے بعد ایک بحران کو سنبھالا اور متحارب دھڑوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا۔