LOADING

Type to search

اسلام آباد(بگ ڈیجٹ) نگران وزیراعظم سے ملاقات میں امریکی سفیر کا شفاف انتخابات کیلئے حمایت کا اعادہ

Share this to the Social Media

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات میں امریکی سفیرڈونلڈ بلوم نے شفاف انتخابات کیلئے حمایت کا اعادہ کیا ہے یاد رہے کہ گزشتہ شب نے پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی تھی۔
امریکی سفیرکی شفاف انتخابات کیلئے پاکستان کے اعلیٰ حکام سے 24گھنٹے میں بیک ٹو بیک یہ دوسری ملاقات تھی ، اس سے قبل گزشتہ رات انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے اس سلسلے میں ملاقات کی تھی،
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے ملاقات میں یقین دہانی کروائی کہ نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری عام انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن (ای سی پی) کی معاونت کرنا ہے۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری، توانائی، سلامتی اور موسمیاتی تبدیلی سمیت اہم شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش کا اعادہ کیا ,
وزیراعظم نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کرنے میں امریکہ کے کردار کو سراہا اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے اصلاحاتی ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی کمپنیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے مواقع تلاش کریں گی، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستانی امریکی کمیونٹی کی اہم شراکت کو سراہتے ہوئے وزیراعظم نے دونوں ممالک کے درمیان عوام سے عوام کے روابط بڑھانے پر زور دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات ہیں جن کی جڑیں باہمی احترام، مشترکہ مفادات اور مشترکہ اقدار پر ہیں۔ انہوں نے دوطرفہ تعلقات کی موجودہ مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔انوار الحق کاکڑ نے اس بات پر زور دیا کہ نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مدد کرے اور جمہوری تبدیلی کے دور میں آئینی تسلسل فراہم کرے۔وزیر اعظم آفس سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے حکومت کی جانب سے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی سمیت اہم شعبوں میں امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کی مدد کرنا اور جمہوری منتقلی کے دوران آئینی تسلسل فراہم کرنا ہے۔
امریکی سفیر نے انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کے اقتصادی اور ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کے لیے امریکا کے عزم کا اعادہ کیا۔
دریں اثنا سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ نگران وزیراعظم سے ملاقات کے دوران انہوں نے پاک امریکا تعلقات، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حمایت اور پاک-امریکا گرین الائنس کے تحت مستقبل کی تعمیر کے لیے کام کرنے کی اپنی خواہش کا اعادہ کیا۔
انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور معاشی بحالی کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری شراکت داری کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
اس سے قبل امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے ملاقات میں پاکستان کے قوانین اور آئین کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے امریکا کی حمایت کا اعادہ کیا۔امریکی سفارتخانے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے ملاقات میں ڈونلڈ بلوم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے مستقبل کے رہنماؤں کا انتخاب پاکستانی عوام کو کرنا ہے، پاکستانی عوام جس کو بھی منتخب کریں، امریکا اُس کے ساتھ پاک-امریکا تعلقات کو وسیع اور گہرا کرنے کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کی مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی۔
دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا نے صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے عام انتخابات کے لیے ’مناسب تاریخ طے کرنے‘ کے پیش نظر ملاقات کے لیے لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار کمیشن کا ہے۔

صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں آئینی تقاضے کا حوالہ دیا تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات ضروری ہیں۔صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے الیکشن کمشنر کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ملاقات کی دعوت دی تھی۔
صدر عارف علوی نےاپنے خط میں آئین کے آرٹیکل 244 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے قبل از وقت تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کی مقررہ مدت میں انتخابات کروانے کے پابند ہیں۔

صدر کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ’صدر کی جانب سے وزیراعظم کے مشورے پر 9 اگست کو قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تھا، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت صدر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل کی تاریخ سے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کریں۔انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کے پابند ہیں جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔

صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 کا حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا کہ جب صدر، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور اس کا شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔
خط میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 یا 224 اے کے مطابق نگران کابینہ تشکیل دی جائے گی۔سکندر سلطان راجا کے خط میں کہا کہ کمیشن انتہائی احترام کے ساتھ یقین رکھتا ہے کہ آپ (صدر) کے خط میں ذکر کردہ آئین کی دفعات پر انحصار اس تناظر میں لاگو نہیں ہوتا۔

ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں کرنا انتخابات کے انعقاد کی جانب ’بنیادی قانونی اقدامات‘ میں سے ایک ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی اپنی ذمہ داری انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے اور کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے دینے کی دعوت بھی دی ہے۔ مذکورہ بالا کمیشن کے اعلان کردہ مؤقف کے باوجود، پورے احترام کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ کمیشن صدر کے عہدے کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مناسب وقت پر قومی مسائل پر آپ سے ملاقات اور رہنمائی حاصل کرنا ہمیشہ ایک اعزاز رہا ہے۔ خط میں مزید مؤقف اپنایا گیا کہ مذکورہ بالا نکات کو مدنظر میں رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
بعد ازاں ایوان صدر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ایوان صدر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خط پر وزارت قانون و انصاف کی رائے مانگ لی ہے‘۔ خیال رہے کہ 20 فروری کو صدر عارف علوی نے یکطرفہ طور پر 9 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کے حکم پر اپنی پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے قبل دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تھا۔ صدر کا یکطرفہ اعلان دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخوں پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرانداز کرنے کے بعد سامنے آیا تھا۔

تاہم اب صورتحال بدل گئی ہے کیونکہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو صدر کے مشورے کے بغیر انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ صدر کو لکھے گئے خط میں سکندر سلطان راجا نے کہا کہ یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ 9 اگست کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی تھی۔
6 اگست کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسمبلیاں اپنی مقررہ مدت سے 3 روز قبل 9 اگست کو تحلیل کر دی جائیں گی، جس کے بعد انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں گے۔ تحلیل ہونے والی اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی تھی تاہم مقررہ وقت سے قبل اسمبلی تحلیل کیے جانے کے سبب الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت آئندہ 90 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا ہوگا، اگر اسمبلی اپنی مدت مکمل کر لیتی تو الیکشن کمیشن کو 60 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا پڑتا۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے شائع سرکاری نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات سے معاونت طلب کی تھی، اس سلسلے میں ضروری احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق حلقہ بندیاں حتمی طور پر 14 دسمبر 2023 کو شائع کی جائیں گی۔الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے مشاورت کے لیے سیاسی جماعتوں کو خط لکھا اور جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی۔
الیکشن کمیشن نے خط میں لکھا کہ سیاسی جماعتوں سے انتخابی شیڈول، حلقہ بندیوں، انتخابی فہرست اور عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سےمتعلق مشاورت کے لیے خط لکھ دیا گیاہے۔ خطوط پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فصل الرحمٰن کو لکھے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ دوسری جانب نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ مقررہ تاریخ پر انتخابات کے انعقاد کے لیے بھرپور حمایت کرنا ہمارا بنیادی مینڈیٹ ہے۔
نگران حکومت بروقت انتخابات کے انعقاد کے لیے پرعزم ہے, ہم قانون اور آئین کا احترام کرتے ہیں اور کسی کے حق یا خلاف عدالتی معاملات میں مداخلت کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔
نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایک ذمہ دار اور آئینی عبوری حکومت ہیں اور ہم کسی آئینی عہدے کے خلاف کوئی تضحیک آمیز تبصرہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ہم اپنے حلف پر قائم ہیں,
نگران وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ پچھلی مخلوط حکومت نے جو بھی اقدامات کیے اس کی خود ذمہ دار ہے۔ تاہم ہمیں بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا علم ہے اور اس مقصد کے لیے ہم اگلے ہفتے معاشی بحالی کا پلان دیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *