نگران وفاقی کابینہ کی تشکیل نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی قوت فیصلہ’ مردم شناسی اور سیاسی سوجپ بوجھ کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں تھی-کابینہ کی تشکیل میں نگران وزیر اعظم نے اس اصول کو حقی الوسع مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کی غیر جانبدارانہ حیثیت پر کوئی حرف نہ آئے-نگران وفاقی کابینہ میں شامل چہرے اپنے شعبے کے ماہر اور عالمی سطح پر بھی گہرے روابطہ رکھتے ہیں تاہم انہیں موجودہ پاکستانی حالات میں جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے وہ خود ان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا-
پاکستان اس وقت جس معاشی اور مالی بحران سے دوچار ہے اس کی سنگینی بتانے کی ضرورت نہیں’ ملک کے پالیسی ساز’ کاروباری حلقے اور عوام اس کی سنگینی اور شدت سے بخوبی آگاہ ہیں-آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ملکی منظر نامے میں ہونے والی پیش رفت بتا رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت کی سمت درست ہو گئی ہے اور اس کا مظاہرہ معیشت کے مختلف شعبوں میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کی صورت میں دیکھنے میں بھی آرہا ہے-
شہباز شریف کی قیادت میں سابق اتحادی حکومت نے بد ترین معاشی ومالی بحران سے دوچار ملکی معیشت کو بھنور سے نکالنے اور پاکستان کے امریکہ’ مغربی یورپ’ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب’ متحدہ عرب امارات کے ساتھ سر د مہری کا شکار تعلقات کو پر جوش بنانے کے لئے جو سرگرمکردار ادا کیا اس کے مثبت اثرات بھی نظر آنا شروع ہوچکے ہیںمگر اس کے باوجود اقتصادی ومعاشی صورت مکمل طور پر قابو میں نہیں-
پاکستان کو درپیش اندرونی معاشی بگاڑ نے سیاسی استحکام کو ہی نہیں بلکہ بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بھی متاثر کر رکھا ہے-اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کرسکتا کہ کوئی بیرونی سرمایہ کار اس وقت تک سرمایہ کاری نہیں کرتا جب تک ملک میں استحکام نہ ہو’ پاکستان میں استحکام ہے تو سب دل کھول کر سرمایہ کاری کریں گے- پاکستان کے لئے اس وقت جہاں امریکہ اور مغربی یورپ کے ساتھ اچھے تجارتی مراسم قائم ر کھنا اور انہیں مزید بہتر بنانا ضروری ہے وہیں مشرق وسطی میں سعودی عرب’ یو اے ای’ قطر’ بحرین’ کویت اور عمان کے ساتھ تعلقات کو بھی مزید بڑھانے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے-
نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کایہ کہنا کہ چین اور امریکہ سب سے اہم ہیں جن ممالک سے تعلقات کچھ سرد مہری کا شکار ہیں ان کو بہتر کریں گے انتہائی خوش آئند ہے-جلیل عباس جیلانی کا بنیادی طور پر تعلق وزارت خارجہ سے ہے’ امریکہ میں2013سے فروری2017تک بحیثیت سفیر امریکہ میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں -قبل ازیں وہ مارچ2012سے دسمبر2013تک بطور سیکرٹری خارجہ کے عہدے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں ان کی بحیثیت نگران وزیر خارجہ تقرری سے خارجی محاذ پر موجود چیلنجز سے نمٹنے میں بھرپور مدد ملے گی-
پاکستان کو موجودہ سنگین صورت حال اور بحرانوں سے نکلنے کے لئے یوں تو ہر شعبے خصوصا معیشت’ صنعت وتجارت’ امور خارجہ اور داخلہ میں جو ہر قابل کی اشد ضرورت ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوارلحق کاکڑ نے جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے بلا شبہ وہ بہترین ہے- وزیر اعظم کا بہترین شخصیات کو نگران حکومت میں کام کا موقع دینے کا مقصد یہی ہے کہ مختصر دور حکومت کے باوجود تمام شعبوں میں ملک وقوم کے مفاد میں بہت کچھ کرنے کے خواہش مند ہیں-
سابق حکومت نے معیشت کے شعبے میں بظاہر تیز تر حرکت کے باوجود معیشت کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ اقتدار کے خاتمے کے اگلے ہفتے ڈالر کی قدر تین سو روپے سے تجاوز کرچکی ہے- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کے اثرات عام اور غریب آدمی پر مزید مہنگائی کی صورت میںپڑ رہے ہیں جس سے ان کی معاشی حالت غیر ہوتی جارہی ہے اور دو وقت کی روٹی کا حصول چیلنج بن گیا ہے ۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلندترین سطح پر ہے اور دوسرے معاشی اشاریے بھی گراوٹ کا شکار ہیں-
نگران حکومت کو فوری طور پر سب سے بڑا اور اہم چیلنج مہنگائی کا درپیش ہے اس کو یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ عوام کی معاشی قوت برداشت پہلے ہی جواب دے چکی ہے مزید بوجھ کے اثرات تباہ کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں اسی وجہ سے نگران وزیرخزانہ کا قلمدان ماہر اقتصادیات’ سفارت کار اور دانشور شمشاد اختر کے سپرد کیا گیا ہے جن کی معاشی منصوبہ بندی کی قابلیت اور تجربہ معیشت کے الجھے ہوئے دھاگوں کو سلجھانے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتا ہے-
صنعتی بحران معیشت کی بد حالی سے براہ راست جڑا ہوا معاملہ ہے لہذا اس کی اصلاح کے لئے چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی گوہر اعجاز کو وزارت صنعت وتجارت کا قلمدران سونپنا بھی ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے – پی ڈی ایم حکومت اپنی سبکدوشی سے کم و بیش ڈیڑھ ماہ قبل سرمایہ کاری قومی سہولت کونسل قائم کرگئی ہے جس کا مقصد بے حساب قدرتی اور افرادی قوت کے وسائل کام میں لاکر معیشت کو مشکلات سے نکالنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کی غیرملکی قرضوں پر انحصار کی بجائے اندرون ملک پیدا شدہ قومی دولت سے آبیاری کرنا ہے۔
ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے منصوبے ماضی میں بھی بنائے جاتے رہے ہیں تاہم دو دہائیوں میں ہونیوالی دہشتگردی کے باعث پائیدار ثابت نہ ہوسکے جبکہ سرمایہ کار موثر ماحول کی ضمانت چاہتے ہیں ۔ ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لئے انقلابی فیصلے ناگزیر ہیں-تاہم ملک کی بھاری اکثریت کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے جس نے اس کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ اس پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ بجلی مہنگی کرنے کے بجائے بجلی کی چوری روکی جائے جس کا حجم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے مطابق 500 ارب روپے تک جاپہنچا ہے-
سولر سسٹم کی تنصیب کیلئے عوام کو بینکوں سے آسان قرضے دیے جائیں، مراعات یافتہ طبقوں سے مفت بجلی، گیس، پٹرول جیسی ساری سہولتیں واپس لی جائیں اور تمام غیر ضروری سرکاری اخراجات بند کئے جائیں- نگران حکومت اگر عوام کے ساتھ قربت پیدا کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے اشرافیہ طبقات کے مفادات کا نہیں بلکہ ملک کے96فیصد غریب عوام کی آواز بننا ہوگا اس کی روٹی روزی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے تیزی رفتاری سے کام کرنا ہوگا…