عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق پاکستان سے حال ہی میں طے پائے جانے والے معاہدے کے حوالے سے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس آج 12 جولائی کو ہوگا۔ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان نیا سٹینڈ بائے معاہدہ 30 جون کو طے پایا تھا، جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ پہلی قسط منظوری کے بعد عنقریب پاکستان کو موصول ہو جائے گی۔ اس تین ارب ڈالر کے معاہدے پر سٹاف لیول ایگریمنٹ مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ پہلے شیڈول میں پاکستان شامل نہیں تھا، جس سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ آئی ایم ایف 30 جون کو ختم ہونے والے پہلے پروگرام سے فنڈز جاری نہیں کرے گا۔ تاہم ملک کے مالیاتی بحران کو کم کرنے کے لیے 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ طے پاگئے تھے۔ یوں 9 ماہ کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا معاہدہ اگر منظور ہوتا ہے تو اس سے 3 ارب ڈالر یا پاکستان کے آئی ایم ایف کوٹے کا 111 فیصد حصہ ملے گا۔ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف سے تقریباً 2 ارب 50 کروڑ ڈالر ملنے کی توقع تھی لیکن اسے 3 ارب ڈالر دیے جائیں گے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کے 11 مطلوبہ جائزوں میں سے 8 کو مکمل کر لیا تھا لیکن نواں جائزہ گزشتہ برس نومبر سے زیر التوا تھا۔ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹس، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہوتے ہیں جو ایسے ملک کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم کرتے ہیں جو ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر سے دوچار ہو۔ اس ضمن میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو لیٹر آف انٹینٹ بھی جمع کرایا ہے، جس میں قرض دہندہ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ آئندہ 9 ماہ کے دوران کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی متعارف نہیں کرائی جائے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے خزانے میں جمع کرائے جس پر میں نے سعودی عرب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا، لیکن آخر ہم کب تک قرضے لیتے رہیں گے اور کب تک قرضوں کی زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے دو ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے خزانے میں جمع کرائے، خواتین کے لیے ’وزیر اعظم بااختیار پروگرام‘ کے اجرا کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ میں نے سعودی عرب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا، انہوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور ایک مرتبہ پھر جب آج پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے تو انہوں نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن آخر ہم کب تک قرضے لیتے رہیں گے اور کب تک قرضوں کی زندگی بسر کرتے رہیں گے، یہ وہ چبھتا ہوا سوال ہے جو میں خود سے اور آپ سب سے کرنا چاہتا ہوں۔اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر کے ڈپازٹ موصول ہوگئے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک مختصر نیوز کانفرنس میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2 ارب ڈالر کا ڈپازٹ پاکستان کو دیں گے، اب یہ کریڈٹ اسٹیٹ بینک کے پاس آچکا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ رقم کی اس آمد سے اسٹیٹ بینک کے پاس موجود غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ 14 جولائی 2023 کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر میں ظاہر ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور پاکستان کے عوام کی جانب سے سعودی عرب کی قیادت بالخصوص خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔وزیر خزانہ نے امید ظاہر کی آنے والے دنوں میں مزید اچھی پیش رفت ہوں گی اور پاکستان کے معاشی معاملات میں اب استحکام سے بہتری کی جانب سفر ہوگا۔اس پیش رفت پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کی جانب سے وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں 2 ارب ڈالر ڈپازٹ کرنے پر سعودی عرب کی قیادت اور برادر عوام کے شکر گزار ہیں۔ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کےلیے مالیاتی معاونت یقینی بنانے پر وہ بالخصوص اپنے بھائی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے شکر گزار ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ایک عشاریہ ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جولائی میں موصول ہو جائے گی۔ آئندہ نو ماہ میں پاکستان کو تین ارب ڈالر ملیں گے جس کی پہلی قسط جولائی میں موصول ہو گی۔وزیر اعظم نے بتایا کہ ’ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے دو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔ آئی ایم ایف سے معادہدہ کوئی فخریہ لمحہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ ’خدا کرے کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا آخری معاہدہ ہو اور ہمیں دوبارہ ان کے پاس نہ جانا پڑے۔‘ جون کے آخر میں ہونے والے معاہدے کے بعدملک میں کاروباری ہفتے کے شروع ہوتے ہی مثبت اثرات دیکھے گئے اور سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس کا آغاز ہی 2200 سے زائد پوائنٹس کے اضافے سے ہوا۔
آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے کے بعد پاکستانی روپے کی قدر پر بھی مثبت اثرات دیکھے گئے تھے اور اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قدر میں تقریباً پانچ روپے کمی دیکھی گئی۔ پیر کو اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قمیت فروخت 285 روپے رہی۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کے اعلان کے بعد سعودی عرب اور یو اے ای کے وعدہ کیے گئے تین ارب ڈالر پاکستان کو مہیا کیے جانے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کو کہا کہ ان کی حکومت کے بنائے گئے معاشی بحالی پلان کے تحت سرمایہ کاری کی صورت میں اربوں ڈالر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے تعاون سے مستقبل قریب میں پاکستان آئیں گے۔پاکستان 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے باقی ماندہ بقیہ 2.5 ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا تاہم یہ سٹینڈ بائے معاہدہ طے پایا گیا۔
یہ معاہدہ جو آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری سے مشروط ہوگا، آٹھ ماہ کی تاخیر کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے فنڈ کے اجرا سے پاکستان کو کچھ سہولت مل جائے گی جو ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کا سامنا کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کو حالیہ دنوں میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں گذشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب اور یوکرین میں جنگ کے بعد اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو مجموعی طور پر چار ارب ڈالر پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھاکہ سعودی عرب کی جانب سے معاونت کی فراہمی سے پاکستان کی اقتصادی بحالی و بہتری کے ضمن میں برادر ممالک اور عالمی برادری کے بڑھتے اعتماد کی عکاسی ہورہی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے اس معاونت سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، ہم پاکستان کی معیشت میں بہتری لانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔خیال رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لیے فنڈ پروگرام کی تجدید میں تاخیر کی مختلف وجوہات میں سے ایک دوست ممالک سے کریڈٹ کی ضمانت ملنا بھی تھی۔سعودی عرب نے پہلے ہی پاکستان کو رقم دینے کا وعدہ کر رکھا تھا اور اسے جمع کرانے سے پہلے آئی ایم ایف کی جانب سے معاہدے کے اعلان کا انتظار کیا۔
آئی ایم ایف کی قسط پاکستان کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ دیگر بیرونی مالیاتی راستے بھی کھول دے گا اور نتیجتاً پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملے گی۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے عندیا دیا ہے کہ سعودی عرب نے ان سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ ان کا پاکستان کو رقم دینے کا ارادہ ہے۔ آئی ایم ایف سے سعودی عرب نے رابطہ کیا ہے اور عالمی ادارے نے ہمیں عندیا دیا ہے کہ عرب ملک کی جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ دوست ممالک کی جانب سے مالیاتی وعدے کی تکمیل آئی ایم ایف کے معاہدے کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ ہے جہاں قرض کی یہ قسط پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک پارلیمانی خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ فنڈز کے اجرا سے قبل دوست ممالک سے بیرونی فنانسنگ کے وعدے پورے کرنا چاہتا ہے۔
بین الاقوامی قرض دہندہ نومبر سے شروع ہونے والی 1.1 ارب ڈالر کی فنڈنگ کے دوبارہ آغاز کرنے کے لیے فروری کے اوائل سے پاکستان سے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جہاں یہ قسط 2019 میں طے پانے والے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا حصہ ہے۔
خیال رہے کہ ملک بھر کی خواتین کے لیے ’وزیر اعظم بااختیار پروگرام‘ کے اجرا کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہماری آبادی میں سے نصف سے بھی زیادہ حصہ خواتین ہیں اور ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بطور ماں کے بچوں کو گھر میں تعلیم کے علاوہ ان کی تربیت جیسے بڑوں کا احترام سکھاتی ہیں اور معاشرے میں بطور ماں ان کا بہت اہم کردار ہے۔انہوں نے کہا کہ آج 75 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں خواتین کے حقوق، انہیں بااختیار بنانے، ان کا احترام، ان کے لیے مواقع مہیا نہیں کر سکے، چاہے اسلامی دنیا ہو یا مغربی ممالک، وہاں خواتین نے ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا تو وہ قومیں کہیں آگے بڑھ چکی ہیں اور پاکستان کو اس معاملے میں ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 5 ارب روپے کا یہ پروگرام آٹے میں نمک کے برابر ہے، ہم نے اپنے سابقہ دور میں جنوبی پنجاب میں بچیوں کو مختلف ہنر سکھائے اور اس سلسلے میں بڑی سرمایہ کاری کی، ہم نے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دیا اور بچیوں کا ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ خواتین پر تشدد کے خلاف پنجاب پہلا صوبہ تھا جس نے اس سلسلے میں کارروائی کا آغاز کیا اور اس کا دیہاتوں اور دور دراز قصبوں میں خواتین کو بہت فائدہ ہوا، مگر اس سے بڑھ کر ہمیں آج درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج معاشی ترقی اور خوشحالی ہے۔
’بہنوں اور بیٹیوں، اب رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مشرق میں ہمسایہ ملک نے 1991 میں آخری مرتبہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کیا اور اس کے بعد انہیں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی، اس زمانے میں پاکستان اور ان کا مقابلہ تھا، ٹیکسٹائل میں ہم ان سے آگے تھے، اسٹیل میں ہم ان سے آگے تھے، ہمارے روپے کی قدر ان کے روپے سے زیادہ تھی لیکن آج کوئی موازنہ نہیں ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں قوم کی قابل بہنوں اور بیٹیوں سے کہوں گا کہ اب رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا، اس طرح تباہی ہمارا مقدر ہوگی، ہمیں اپنے حالات کو سنبھالنے کے لیے کھڑا ہونا ہو گا اور ماضی سے سبق حاصل کرنا ہو گا اور ایک جاندار قوم کی طرح آگے بڑھنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت باصلاحیت لوگ ہیں، یہاں بڑے بڑے ازہان بیٹھے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مواقع پیدا کیے جائیں اور ان باصلاحیت لوگوں کو اس کا پورا فائدہ فراہم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالجز میں ہماری قوم کی بیٹیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں جس پر اس وقت سرکار کا تقریباً 15 سے 20 لاکھ روپیہ خرچ ہوتا ہے، ان کو انتہائی رعایت کے ساتھ یہ تعلیم فراہم کی جاتی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سی بیٹیاں ہسپتال میں دکھی انسانیت کی خدمت کرتی ہیں، وہیں ایسی تعداد میں بھی کمی نہیں کہ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شادی کر کے گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں، یہ وہ مسئلہ ہے جسے ہمیں حل کرنا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں اقوام عالم میں اپنے پاکستان کو ممتاز کروانا ہے اور لوہا منوانا ہے تو پھر مردوں اور خواتین کو مل کر پاکستان کی ترقی میں حصہ لینا ہو گا، ہمیں انہیں مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔
’پورے سیاسی کیریئر میں اس سے زیادہ سخت معاشی چیلنج نہیں دیکھا‘
انہوں نے ایک مرتبہ پھر معاشی حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلا ایک سال مالی لحاظ سے بہت سخت گزرا ہے، میں نے اپنے پورے سیاسی کیریئر میں اس سے زیادہ سخت معاشی چیلنج نہیں دیکھا، پچھلے سال تباہ کن سیلاب آیا، عالمی کساد بازاری تھی، بہت زیادہ مہنگائی ہوئی، پھر یوکرین میں جنگ چھڑ گئی، تیل اور گیس بہت مہنگی ہو گئی، ان تمام عوامل نے ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کردیا۔
شہباز شریف نے خطاب کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ اس کے بعد ہمیں آئی ایم ایف سے مذاکرات میں کافی وقت لگ گیا، اللہ کا شکر ہے کہ وہ مرحلہ بہت حد تک طے ہو گیا، کل 12 تاریخ کو آئی ایم ایف کا بورڈ بیٹھے گا اور دعا کیجیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو جائے، یہ کوئی فخریہ بات نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کب تک آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں گے اور کب تک یہ زنجیریں ہمارے پاؤں میں بندھی رہیں گی، اگر ہمیں یہ زنجیریں توڑنی ہیں تو ہمیں اپنی پوری اجتماعی صلاحیت بروئے کار لانا ہو گی اور تمام وسائل اپنی نسل کے قدموں میں نچھاور کرنا ہوں گے ورنہ اس کے بغیر یہ ملک آگے ترقی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ عظیم دوئم میں جرمنی اور جاپان نیست و نابود ہو گئے، کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے لیکن 50 سال میں وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے، انہوں نے دن رات محنت کی جس کی تاریخ گواہ ہے اور آج جاپان اور جرمنی ایک طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جرمنی نے ہیمبرگ یونیورسٹی بنائی، جاپان نے ٹوکیو یونیورسٹی بنائی، ریسرچ سینٹر بنائے، اس خطے میں مسلمانوں نے ملکہ کی یاد میں بڑے بڑے مقبرے بنائے اور انہوں نے جامعات اور تحقیقی ادارے بنائے، آج وہ کہاں سے کہاں نکل گئے۔