آرمی چیف اور فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانا پی ٹی آئی کا ٹرینڈ بن چکا ہے,سوال یہ ہے کہ حکومت نے عمران خان کے خلاف نرم گوشہ ا ختیار کیوں کر رکھاھے ؟
آرمی چیف اور فوج کی سوشل میڈیا پرمسلسل کردارکشی پرحکومتی ذمہ داران کی مسلسل خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ 9مئی کے واقعے پر ریاست کو انصاف نہیں مل رہا ؟ فوجی تنصیبات پرحملہ آور ہونے والے آزاد ہیں،یاد رہے کہ رواں برس 9 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کیا تھا۔ پی ٹی آئی کارکنوں نے جناح ہاؤس لاہور سمیت فوجی تنصیبات، تاریخی عمارتوں، سرکاری املاک اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی،اٹارنی جنرل نےبتایا تھا کہ پنجاب میں ایم پی اوکے تحت 41 ، اے ٹی اے کے تحت 141 افراد تحویل میں ہیں، پنجاب میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا،42 کو بری کردیا گیا،
اس کے علاوہ سندھ میں کوئی بھی پولیس کی حراست میں نہیں ہے، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں، سندھ میں 70 افراد کو ضمانت دی گئی ہے اور 117 افراد 3 ایم پی او کے تحت حراست میں ہیں۔ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون، صحافی یا وکیل ملٹری کسٹڈی میں نہیں، 9 اور 10 مئی واقعات میں کوئی خاتون ملٹری کسٹڈی میں نہیں، کوئی خاتون ملٹری کسٹڈی میں نہیں اس لیےخواتین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوگا۔
وفاقی حکومت کامؤقف واضح ہے، 9 اور 10 مئی واقعات پرکسی صحافی یا وکیل کوگرفتارنہیں کیا جائے گا،
ناقدین کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ یہ ناقدین عدالت کے مختلف احکامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے کہ انحراف سے متعلق شق کی تشریح جس پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آئینی شق کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ اسے ’دوبارہ لکھا گیا ہے‘۔ ایک اور معاملہ عمران خان کو اس وقت کے موجودہ اور ممکنہ مقدمات میں ملنے والی ضمانت کا بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی۔ حالیہ مہینوں میں متعدد مواقع پر عدالت عظمیٰ میں اس وقت تقسیم نظر آئی جب ’اختلاف‘ کرنے والے ججوں نے فیصلوں پر نوٹس لکھے، اور وہ بعد میں منظر عام پر آئے۔ ان نوٹس میں انہوں نے معزز چیف جسٹس کے ساتھ بینچوں کی تشکیل اور فیصلوں پر اختلاف کیا تھا۔ نگران حکومتیں صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پہلے سے موجود ہیں کیونکہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل ان کی مدت ختم ہونے سے مہینوں پہلے ہی کردی گئی تھی۔ پی ٹی آئی (اور اس کے اتحادیوں) کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں پڑنے والا دباؤ ملک بھر میں قبل از وقت انتخابات کا باعث بنے گا۔
یہ چال چال ناکام رہی، کیونکہ ملک گیر انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا جاسکا۔ درحقیقت سپریم کورٹ بھی ان دو صوبوں میں آئینی طور پر مقررہ مدت کے دوران انتخابات کروانے سے قاصر رہی۔
نگران حکومت کی مدت کے دوران ہی ستمبر کے وسط میں چیف جسٹس کی کرسی پر موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آجائیں گے۔اگر وزیراعظم 12 اگست کو پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو انتخابات 90 دن کے اندر کروانا ہوں گے اور اگر اسمبلی اپنے 5 سال پورے کرے گی تو 60 دن میں انتخابات کروانا ہوں گے۔ یعنی جلد از جلد بھی انتخابات اکتوبر میں ہی ہوسکیں گے۔
میرے خیال میں یہ انتخابات نومبر کے وسط میں ہونے کا زیادہ امکان ہے، اس وقت تک نئے چیف جسٹس کو تقریباً 2 ماہ ہوچکے ہوں گے ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے چیف جسٹس اور بینچوں سے مختلف رویے کی توقع ھے۔
لہٰذا، نچلی عدالتوں کے نااہلی اور ممکنہ قید جیسے منفی فیصلوں کی صورت میں اپیل کا نتیجہ کچھ مختلف ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ قیاس آرائیاں ہیں اور ممکن ہے کہ حقائق کوئی مختلف کہانی سنائیں۔
فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانا پی ٹی آئی کا ٹرینڈ بن چکا ہے, ان واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل جاری ہے
۔ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم بھی ستمبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ میں قواعد و ضوابط کے بارے میں واضح نہیں ہوں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا موجودہ وزیر اعظم اگر چاہیں تو نگران حکومت کے آنے سے پہلے انہیں توسیع کی پیشکش کرسکتے ہیں یا نہیں اور آیا ڈی جی آئی ایس آئی اسے قبول بھی کریں گے یا نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن ہے۔ سچ پوچھیں تو اس تبدیلی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ داخلہ پالیسی کا انچارج افسر تو ڈی جی سی ہوتا ہے جو آئی ایس آئی سربراہ سے ایک درجہ نیچے ہوتا ہے اور یہاں تک کہ اگر ڈی جی آئی کو تبدیل کر دیا جاتا ہے تو بھی ادارے میں انتخابات تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی معمول کے مطابق کام ہوگا۔
بلاشبہ اس وقت سب سے بڑا سوالیہ نشان اس بارے میں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کب پاکستان واپس آئیں گے اور کیا انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وقت پر عدالتوں سے بری کر دیا جائے گا۔ اگر وہ انتخابات میں حصہ لے کر جیت جاتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شہباز شریف کا بطور وزیر اعظم بہت مختصر دور بس یہیں تک تھا؟ یا نواز شریف کوئی مختلف کردار سنبھالیں گے اور چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیں گے؟ دیکھنا ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے کہ اس کے نامزد امیدوار کو وزارت عظمیٰ کی کرسی مل جائے۔ اگر انتخابات کا نتیجہ اس کے برعکس ہوا تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آنے والے ہفتوں میں کیا ہوتا ہے؟ یعنی نگران حکومت کے قیام، انتخابات کے انعقاد اور اس سے آگے؟آئی ایم ایف پیکج پر بورڈ کی منظوری اب ایک رسمی کارروائی ہی رہ گئی ہے, ڈیفالٹ کا امکان کم ہے اور اب سب کی نظریں انتخابات پر ہیں ۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ 2017 میں فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی حمایت کرچکی ہے ، عدالتی نظائر بدلے نہیں جاتے۔ آرمی چیف کے خلاف مہم چیئرمین پی ٹی آئی کے کہنے پر چلائی گئی۔خواجہ آصف کا کہنا تھا چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت پراکسی کے ذریعے پروپیگنڈا کر رہے ہیں، 9 مئی کو جو ان لوگوں نے کیا، اللہ کے فضل سے ناکام ہوا، ناکامی کے بعد دوبارہ یہ پلان پراکسی کے ذریعے لانچ کیا گیا ہے۔
کیا یہ عمران خان اینڈ کمپنی کے لیے بالواسطہ این آر او ہے جیسا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعے میں ملوث خواتین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں کیا جائے گا؟
جب کہ یاد رہے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کا 26 جون ، 2023 کو راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں 102 شرپسندوں کا ٹرائل کیا جارہا ہے اور یہ جاری رہے گا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی فیصلہ سازی میں مکمل ہم آہنگی اور شفافیت ہے، سانحہ 9 مئی کو نہ بھلایا جائے گا اور نہ ملوث عناصر کو معاف کیا جاسکتا ہے، تمام ملوث کرداروں کو آئین پاکستان اور قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس عمل کو انجام تک پہنچانے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائیگا، فوج نے اپنی روایات کے مطابق خود احتسابی مرحلے کو مکمل کرلیا ہے۔ فوجی عدالتوں میں 102 شرپسندوں کا ٹرائل کیا جارہا ہے اور یہ جاری رہے گا، فوج میں خود احتسابی کا عمل بغیر کسی تفریق کے کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کررہی ہیں، ملٹری کورٹس 9 مئی کے بعد وجود میں نہیں آئیں ، پہلے سے موجود اور فعال تھیں، ثبوت اور قانون کے مطابق سول کورٹس نے ان کیسز کو ملٹری کورٹس منتقل کیا ہے, ثبوت دیکھنے کے بعد قانون کے مطابق سول کورٹس نے یہ مقدمات ملٹری کورٹس بھیجے ہیں، ان تمام ملزمان کو مکمل قانونی حقوق حاصل ہیں، ان ملزمان کو تمام حقوق حاصل ہیں اور انہیں اپیل کا بھی حق حاصل ہے۔ آرمی ایکٹ قانون اور آئین کا کئی دہائیوں سے حصہ ہے۔
دوسری طرف وزیر اعظم اور دوسرے وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کو قاتلانہ حملے کی دھمکی دینے کے لیے پراکسیوں کا استعمال کرنے کی چال بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر قاتلانہ حملے کی سوشل میڈیا مہم کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف اندرون و بیرون ملک قانونی اقدامات کی ہدایت کی ہے ۔
ایک ٹوئٹ میں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کے خلاف مذموم اور بدنیتی پر مبنی مہم میں مصروف ہیں۔ آرمی چیف کو قاتلانہ حملے کی دھمکی دینے کے لیے پراکسیوں کا استعمال کرنے کی اس کی چال بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاستی علامتوں پر اس کے منصوبہ بند حملے ناکام ہونے کے بعد وہ واضح طور پر اقتدار میں واپسی کے لیے شدید بے چین ہے، اسے معلوم نہیں کہ اس کی دھمکی، تشدد اور نفرت کی سیاست کا وقت ختم ہو گیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس طرح کی انتہائی قابل مذمت حرکات کے ذریعے وہ صرف اپنے آپ کو بے نقاب کر رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد اپنے ذاتی مفاد (اقتدار پر قبضہ) کو باقی تمام چیزوں سے بالاتر رکھنا ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم کے دفترسے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف کا کہنا تھا کہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف میڈیا مہم چلانا آزادی اظہار کے زمرے میں نہیں آتا، یہ صرف سازش ہے جسے پوری قوت سے روکنا قانونی فرض ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر پر قاتلانہ حملے کی سوشل میڈیا مہم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ 9 مئی کے ’یوم سیاہ‘ کے لیے بھی ایسے ہی ذہن سازی کی گئی تھی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے منصوبہ ساز، سہولت کار اور ہینڈلرز کو دوٹوک پیغام ہے کہ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف ہر سازش کچل دیں گے۔ سازشی ذہن اور عناصر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے خلاف پھر سے سرگرم عمل ہیں، آرمی چیف اور فوج کے خلاف گھٹیا، مذموم اور شرانگیز میڈیا مہم شیطانی ذہن کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہدا کے خلاف غلیظ سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کی نئی میڈیا مہم ایک ہی منصوبے کی کڑی ہے، قوم اس گھناؤنی سازش کو بھی اسی طرح ناکام بنائے گی جس طرح 9 مئی کو ملک میں خانہ جنگی کی سازش ناکام بنائی تھی۔
وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مایوس عناصر کو بوکھلاہٹ اور مایوسی میں ملک میں نیا بحران پیدا نہیں کرنے دیں گے، قوم اپنی فوج اور اس کے سربراہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ اپنی ٹوئٹ میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں اپنے آرمی چیف اور مسلح افواج کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور ان کے وقار، عزت اور سالمیت کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش اور سازش کو ناکام بنائیں گے۔
موجودہ حکومت کے ذمہ داران کا عمران خان کے خلاف کیوں نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں؟
سپریم کورٹ میں ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں کے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا تھا کہ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون،صحافی یا وکیل ملٹری کسٹڈی میں نہیں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کےٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 3 سوالات مجھ سے پوچھے گئے، اسلام آباد میں کوئی بھی فرد پولیس کی تحویل میں نہیں ہے، 4 افراد کے پی میں زیر حراست ہیں۔
اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ آپ سویلین کسٹڈی کی بات کررہے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا تھا کہ جی یہ سول کسٹڈی کا ڈیٹا ہے۔دوسری جانب حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان میں عمران خان کے افواج پاکستان کے حساس پیشہ ورانہ امور کو متنازع بنانے‘ کی مذمت کی ہے۔ 9مئی کو پاک فوج کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش کی گئی،وزیراعظم شہبازشریف نے عمران خان کی آرمی چیف سے متعلق ’الزام تراشی‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کا بیان پاک فوج کے خلاف ان کی گھٹیا ذہنیت کا ایک اور ثبوت ہے۔یہ بیان 9 مئی کے المناک واقعات کے ماسٹر مائنڈ کا اعتراف جرم ہے، یہ وہی ذہنیت ہے جس نے محب وطن آرمی افسران پر اپنے قتل کے جھوٹے الزامات لگائے، سائیفر اور بیرونی سازش کی جھوٹی کہانیاں گھڑیں، یہ ملک دشمنی اور دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ کے اصل عزائم کا اظہار ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان کا بیان اعتراف ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ عمران خان کے کہنے پر ہوا، بیان ثبوت ہے کہ شہدا اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی اور حساس تنصیبات اور عمارتوں پر حملے کے پیچھے منصوبہ بندی عمران خان کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل سید عاصم منیر سے عمران خان کو تکلیف یہ ہے کہ وہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی عمران خان، ان کی اہلیہ، فرح گوگی اور پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کی بدترین کرپشن سے آگاہ ہیں۔وزیراعظم کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ آرمی کے انتہائی ڈیکوریٹڈ، رینک اینڈ فائل میں ہردلعزیز اور میرٹ پر آرمی چیف بننے والے جنرل سید عاصم منیر کے خلاف ہرزہ سرائی بدنیتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شمشیر اعزاز اور حافظ قرآن ایماندار آرمی چیف سے عمران خان خوفزدہ ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی بہادر فوج کے سپہ سالار کے خلاف اس نوعیت کی گھٹیا گفتگو دہشت گردوں کی حمایت ہے، پوری قوم مسلح افواج اور آرمی چیف کے ساتھ کھڑی ہے۔.یاد رہے کہ بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر گورو آریا جو بھارت میں ایک پاکستان مخالف ٹی وی اینکر کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں نے اپنی متعصب ذہنیت کے برعکس پاکستانی فوج کو ایک طاقتور، پروفیشنل اور اعلیٰ ساکھ کی حامل فوج قرار دیتے ہوئے دنیا کی بہترین فوج کا ادارہ قرار دیا ہے اور پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پاک فوج ہی ہے کہ جس نے پاکستانی قوم کو متحد کر رکھا ہے.بھارتی میڈیا کے ایک ٹی وی چینل کو اپنے ایک انٹرویو میں گور و آریا کایہ بھی کہنا تھا کہ ان دنوں بھارتی میڈیا اور وہ خود پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف اس لئے بھی زیادہ بات نہیں کرتے کیونکہ یہ کام اب پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں۔
بھارتی میجر (ر) گورو آریا کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے ہی قومی اداروں کے خلاف بیان دے کر اپنی ہی فوج کا نقصان کر رہے ہیں اس لئے بھارت کو کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ویسے بھی عمران خان بھارت کا یہ کام بہت اچھے انداز میں کر رہے ہیں اور اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں کیونکہ اگر پاکستان کی فوج مضبوط ہوگی تو پاکستان کے پاس کم از کم ایک ادارہ تو ایسا ہے جو زیادہ مضبوط ہوگا اور جس نے قوم کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
گورو آریا کہتے ہیں کہ پاکستان آرمی صرف ایک فوج ہی نہیں بلکہ وہ ایک گلیو ( گوند ) ہے جس نے پاکستان کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے سب کو اکٹھا کیا ہوا ہے لیکن اب اسے اندر سے نقصان پہنچ رہا ہے۔
یاد رہے کہ کوئی شخص یا ادارہ آئین سے بڑا نہیں ہے،ہم سب آئین کے تابع ہیں ، آئین ہمارے تابع نہیں، ریاست سے وفاداری اور آئین کی پاسداری ہرشہری پر فرض ہے ۔ ریاستی اداروں کیخلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے ،ایک سیاسی دھڑا ریاست اور اداروں کو کمزور کرنے میں مصروف ہے