LOADING

Type to search

قومی : یوم تقدیس قرآن: سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج

Share this to the Social Media

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی اپیل پر نماز جمعہ کے روز سویڈن واقعے کے خلاف ملک بھرمیں احتجاج ہوا, جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کراحتجاجی ریلیاں نکالیں ,
یاد رہےکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تھی اور جمعے کو ’یوم تقدیس قرآن‘ منانے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے ملک بھر میں احتجاج اور ریلیاں نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ملک بھر میں شہریوں نے ریلیاں نکالیں اور سویڈن میں پیش آنے والے واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

وکلاء,مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے احتجاج کیا اور اس موقع پر مظاہرین نے کہا کہ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔اس موقع پر مس عظمیٰ مبارک فنانس سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی ,ممبر ایگزیکٹو عظمت علی مبارک ,لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کی سابق ایگزیکٹو ممبرطاہرہ بانومبارک اوردیگروکلاء کا گفتگو کرتے ہوئےکہنا تھا کہ سویڈن میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس کی بھرپو مذمت کرتے ہیں, ہمارا مطالبہ ہے کہ مجرموں کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔وکلاء کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں ان واقعات کا بھرپور نوٹس لے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سویڈن کے سفیر کو طلب کرکے پاکستان کی طرف سے بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر نے ہمیں نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کے احترام اور ان کی پاسداری کے بارے میں بتایا ہے۔ آزادی اظہار کا حق ذمہ داری سے استعمال کیا جانا چاہیے۔لاہور میں بھی ریلیاں نکالی گئیں جہاں جماعت اسلامی کے ضیاالدین نے خطاب کیا اور کہا کہ حکمران اتحاد نے اس واقعے پر صرف قومی اسمبلی میں ایک مذمتی قرارداد منظور کی ہے۔

حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس طلب کیا جائے اور سویڈن کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے، انہوں نے مظاہرین سے سویڈن کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چند شیطان صفت لوگ اسلامی شعار و قرآن سے عداوت اور نفرت کرتے ہیں لیکن امت مسلمہ نے ہر دور میں قرآن اور حرمت رسول سے اپنا تعلق مضبوط رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوآئی سی اور بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی قیادت سے پوچھتا ہوں تم نے سویڈن کے سفیروں کو باہر کیوں نہ نکالا، واپس کیوں نہ بلایا، امت سوال کرتی ہے۔ کراچی میں بھی مذہبی جماعتوں اور شہریوں کی جانب سے نماز جمعے کے بعد ریلیاں نکالی گئیں۔ بولٹن مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ، داؤد چورنگی اور دیگر علاقوں میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے اور نعرے لگائے، جس کے نتیجے میں شہر میں ٹریفک جام ہوا۔ خیبرپختونخوا میں بھی ریلیاں نکالی گئیں، پی ٹی آئی ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں نے بشام، کارورا، الپوری، پوران اور چاکیسر میں احتجاج کیا۔ بٹگرام میں ختم نبوت چوک پر مظاہرین نے احتجاج کیا

رہنماؤں نے کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس فعل کی بنیادی وجہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا تھا۔ یورپ میں اس طرح کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں، ضروری ہے کہ یورپی ممالک ان واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔ یہ ممالک آزادی اظہار اور مسلمانوں کے مذہبی عقائد سے چھیڑ چھاڑ کے درمیان لکیر کھینچیں اور سویڈن کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ گزشتہ ہفتے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے والے ملزم کے خلاف کارروائی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اربوں مسلمانوں کا دل دکھانے پر ملزم کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذکورہ واقعے پر احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے سویڈن کے سفیر کو پاکستان سے واپس بھیج دیں۔ اس سے قبل گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا تھا کہ سویڈن کے ناظم الامور کو بے حرمتی کے واقعے کے سلسلے میں بدھ کو دفتر خارجہ میں طلب کیا گیا تھا۔ پاکستان نے اس واقعے پراپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو او آئی سی میں بھی لے گیا ہے اور جنیوا میں بلاک کے رابطہ کار نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں یہ معاملہ اٹھایا، جہاں قرآن پاک کے نسخوں کی بے حرمتی کرنے، اسلاموفوبیا، جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے پر خصوصی بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ دنیا کو بتایا ہے کہ یہ نا قابل برداشت حرکت دوبارہ ہوئی تو ہم سے سے کوئی گلہ نہ کرے.پاک کلام کوجلا کر یہ ساری دنیا میں تقسیم پیدا کرنا چاہتے ہیں”، اس معاملے کو اٹھانے کا بہترین فورم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) ہے، پوری اسلامی دنیا اس پر بھرپور آواز بلند کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، یو این سیکریٹری جنرل اس معاملے پر اقوام متحدہ کا فوری اجلاس بلائیں،صبر و تحمل کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اس کا جواب دینا نہیں آتا ”۔ اس سے قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سوئیڈن واقعے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اس موقع پروزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایوان ایک کمیٹی بنائے جو آئندہ ایسی مذموم حرکتوں کے خاتمے کیلئے سفارشات دے۔ کمیٹی دنیا بھر کے فورمز میں سفارشات پہنچائے۔انہوں نے مزید کہا کہ سویڈن میں قبیح حرکت کی پوری قوت سے مذمت کریں، سویڈن کی حکومت نے ایسا واقعہ کیوں ہونے دیا؟ وزیراعظم نے کہا تھا کہ سویڈن میں جو واقعہ پیش آیا ہے پوری مسلم امہ، پاکستانی قوم اس کی بھرپور شدت سے مذمت کرتی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ مجرموں کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سویڈن میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کی پاکستانی حکومت نہ صرف بھرپور مذمت کر رہی ہے بلکہ سویڈن حکومت سے مطالبہ کرتی ہے وہ ان واقعات کا بھرپور نوٹس لے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کا لبادہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ”یہ ناقابل قبول ہے”۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ مجھے اس بات کا بڑا اطمینان ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم نے اس پر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس اجلاس میں اس حرکت کی بھرپور مذت کی گئی بلکہ مطالبہ کیا گیا کہ نہ صرف مجرموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ سیکریٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طحٰہ نے کہا ہے کہ ”تمام اسلامی ممالک قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لیے اجتماعی اقدامات کریں”۔ ” قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی بےحرمتی اور توہین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔” اس کے لیے بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کی ضرورت ہے، جو منافرت کو پھیلنے سے روکتا ہے۔
سیکریٹری جنرل او آئی سی نے زور دیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور ٹھوس اقدامات کریں ۔
خیال رہے کہ پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کی تھی۔
سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور کئی ممالک میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ او آئی سی کے اعلامیے میں اس قسم کے اقدامات کی سنگینی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ رواداری اور اعتدال پسندی جیسے اقدار کے پھیلاؤ اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے متصادم ہیں,
اعلامیے میں متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان ’گھناؤنے حملوں‘ کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔
او آئی سی نے تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے۔ ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے مذاہب، ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے، افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
یورپی یونین نے بھی اس واقعے کو شدید انداز میں مسترد کرتے ہوئے اسے ’جارحانہ، توہین آمیز اور اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام‘ قرار دیا ہے۔ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے پر یورپی یونین نے بیان جاری کیا اور کہا کہ سویڈن میں قرآن کریم کی بےحرمتی کے عمل کو مسترد کرتے ہیں، یہ واقعہ جارحانہ، بےعزتی پر مبنی اشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے۔ یورپی یونین کے مطابق یہ عمل کسی بھی طرح یورپی یونین کی رائےکی عکاسی نہیں کرتا،خیال رہے کہ بےحرمتی کا واقعہ ایسے وقت کیا گیا جب مسلمان عیدالاضحیٰ منا رہے تھے، یورپی یونین مذہب یا عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کھڑی ہے، نسل پرستی، نفرت انگیزی، عدم برداشت کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں۔خیال رہے کہ 28 جون کو 37 سالہ سلوان مومیکا نے قرآن پاک کے بارے میں اپنی ’رائے کا اظہار‘ کرنے کے لیے پولیس سے قرآن پاک کے اوراق نذرآتش کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔

احتجاج سے قبل اس شخص نے نیوز ایجنسی ’ٹی ٹی‘ کو بتایا تھا کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ یہ جمہوریت ہے، اگر وہ ہمیں بتائیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے تو یہ خطرے میں ہے۔پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں اور اپنے اردگرد عربی میں اس عمل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درمیان اس شخص نے میگا فون کے ذریعے کئی درجن کے ہجوم سے خطاب کیا۔ اس شخص نے قرآن پاک کو زمین پر پھینکا اور سویڈن کا جھنڈا لہراتے ہوئے اوراق کو نذرآتش کیا۔واضح رہے کہ اس سال کے شروع میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے ایک رہنما پالوڈن نے ڈنمارک کی ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کر دیا تھا جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ اسی نے 21 جنوری کو بھی سویڈن میں ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے اسلام اور امیگریشن مخالف مظاہرے کے دوران ایسی ہی حرکت کا ارتکاب کرتے ہوئے قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذرآتش کرکے بے حرمتی کی تھی۔خیال رہےکہ راسموس پلودن اور اس کی پارٹی کی جانب سے اس سے قبل بھی اسلام مخالف حرکات کی جاتی رہی ہیں، 2022 اور 2020 میں بھی پلودن نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنےکی تقریب کے انعقاد کی کوشش کی تھی جس کے بعد سوئیڈن میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔سویڈن میں دائیں بازو کے اسلام مخالف انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن پاک جلانے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ انتہا پسند ڈچ سیاستدان ریسمس پلودن نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی تقریب میں شرکت کی کوشش کی ہے ۔ پولیس نے ڈچ سیاستدان پلودن کو قرآن پاک کی بے حرمنی کرنے اور اسے نذر آتش کرنے کی تقریب سے روکتے ہوئے ڈج سیاستدان کو واپس سرحد پار بھیج دیا اور کہا کہ ان پر ملک میں داخلے کے لیے دو سال کی پابندی عائد ہے۔ انتہا پسندوں نے اسلام مخالف ڈچ رہنما کو قرآن پاک کی بے حرمتی کی تقریب میں شرکت کی اجازت نہ ملنے پر سویڈن کے جنوبی شہر میلمو میں مظاہرے مظاہرے شروع کر دیے۔ پولیس سے جھڑپوں میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسلام مخالف مظاہرین نے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا اور دکانوں کو آگ لگا دی۔ انتہا پسند جماعت کے ڈینش سربراہ اسٹارم کرس کو ڈنمارک میں گزشتہ برس نسلی تعصب کے الزامات پر ایک ماہ جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی سویڈن میں اسلام مخالف انتہا پسندوں نے قرآن پاک کو نذر آتش کیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کی تھی۔یہ واقعہ جارحانہ، بےعزتی پر مبنی اشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو جب مسلمان اپنے دور عروج میں تھے، مغرب میں اسلامو فوبیا اس وقت بھی شباب پر تھا۔ متعصب عیسائی پادری اور رہنما پورے یورپ میں گھوم گھوم کر اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے.
صلیبی جنگیں انھی جھوٹے پروپیگنڈوں کی بنیاد پر مذہبی جوش و خروش سے لڑی گئیں۔ استشراق کی کلاسیکل تحریروں میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی تفصیل موجود ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انتہا پسندی ہر سماج اور ہر مذہبی اکائی میں موجود ہے۔ جرمنی میں اس کا ظہور نیو نازی ازم تحریک میں ہوا ہے تو امریکہ میں ایونجلیکل فرقہ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ ڈنمارک، نیدرلینڈ اور انگلینڈ میں بعض سیاسی پارٹیاں لیڈر اور کئی مسیحی پادری قرآن جلانے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔
کئی پادری اور خواتین ڈبیٹرز کی اسلام مخالف ہرزہ سرائیاں یوٹیوب پر سنی جا سکتی ہیں۔ 9 / 11 کے بعد امریکہ میں ایک اسلاموفوب گروپ نے کعبہ کو بم سے اڑا دو کا مکروہ نعرہ بھی لگایا۔فرانس میں الٹرا سیکولر گروپوں اور حکومت کو مسلمان عورت کے حجاب (اسکارف ) سے ڈر لگتا ہے۔ ڈنمارک میں مساجد کے میناروں سے خوف آتا ہے۔ میں پیغمبر اسلام کے استہزائیہ کارٹون بناکراس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مفلس اور خانماں بربادشامی مہاجرین کی یورپ منتقلی سے بھی مغرب میں بعض لوگوں پر دہشت طاری ہے.
میڈیا کے بڑے بڑے گروپ، فرائیڈ مین جیسے اسرائیل نواز صحافی، جیری فالویل جیسے پادری، ڈینیل پائپس اور برنارڈلویس جیسے بڑے مستشرق سر میں سر ملائے ہوئے ہیں۔
فاکس نیوز، سی این این ، سی این بی سی کی رپورٹوں اور تجزیوں میں جانب داری جھلکتی ہے۔ ان کے اکثر اینکر اور رپورٹرز مسلمانوں اور عربوں سے عناد اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا حالیہ واقعہ، اہانت رسول کے بد بختانہ واقعات، ملعون زمانہ کارٹون اور اسی قسم کے شوشے اسلاموفوبیا کا حصہ ہیں۔
پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم کی تین سال کی کوششوں کے بعد ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022 ء میں ایک قرارداد کے ذریعے تنظیم کے کیلنڈر میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے مقابلے کے دن کے طور پر منانے کی منظوری دی۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ 15 مارچ 2019 ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح شخص نے دو مساجد کے نمازیوں پر متعدد ہتھیاروں سے حملہ کر کے 51 افراد کو قتل کر دیا۔ یہ نیوزی لینڈ کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔یاد رہے کہ عالمی قوانین کےتحت ریاستیں پابند ہیں کہ وہ مذہبی منافرت جیسے واقعات نہ ہونے دیں۔ پچھلے کچھ برسوں سے مغرب میں اسلام مخالف واقعات سامنے آئے ہیں۔مغرب اپنے ہاں اسلام دشمنی کے رجحان کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مغرب تو جو کر رہا ہے سو اس نے کرنا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری دینی و ملی قیادت بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے، قوم کی تربیت ان خطوط پر کرے کہ وہ قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں تاکہ ان کا طرزعمل اسلامو فوبیا کے پروپیگنڈے کے ازالے کا باعث بنے۔ آزادی اظہار کا لبادہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔دفتر خارجہ پاکستان کی ترجمان کا کہنا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی، مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اظہار رائے کی آزادی میں نہیں آتا۔ انسانی حقوق کے علمبردار نفرت انگیز عمل کی روک تھام کی ذمہ داری نبھائیں، انسانی حقوق کے علمبردار لوگوں کو تشدد پر نہ اکسانے کی ذمہ داری نبھائیں، اسلام امن کا مذہب ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان تمام مذاہب کے احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ سوئیڈن اور ترکیہ کے درمیان نیٹو کی رکنیت کو لے کر کشیدگی چل رہی ہے۔ سوئیڈن نیٹو میں شمولیت کا خواہاں ہے لیکن ترکیہ گزشتہ برس مئی سے اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ترکیہ کا کہنا ہے کہ پہلے سوئیڈن ترک صدر طیب اردگان کے ناقدین اور کرد رہنماؤں کو ڈی پورٹ کرے لیکن سوئیڈن یہ مطالبات تسلیم نہیں کر رہا۔ اسی اثناء میں سوئیڈن کی انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند جماعت کے رہنما راسموس پلودن نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے کو اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے باہر احتجاج کرے گا اور اس دوران وہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
سوئیڈش حکام نے راسموس کو قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دے دی تھی جس پر ترکیہ نے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا خیال رہےکہ راسموس پلودن اور اس کی پارٹی کی جانب سے اس سے قبل بھی اسلام مخالف حرکات کی جاتی رہی ہیں، 2022 اور 2020 میں بھی پلودن نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنےکی تقریب کے انعقاد کی کوشش کی تھی جس کے بعد سوئیڈن میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔اس وقت پوری دنیا میں عمومی اور مغربی ملکوں یورپ و امریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدید سے شدید تر ہے، مسلمانوں سے امتیازی سلوک، اسلام کو بدنام کرنے، اس کی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے واقعات مغرب میں معمول ہیں۔
اسلامو فوبیا کا اسیر تمام مسلمانوں سے جارحانہ رویہ رکھتا ہے، اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاسکتا ہے، پاکستان اور او آئی سی کی کوششوں سے اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے ہر سال 15 مارچ کو ”اسلاموفوبیا ڈے“ منانے کی قرار داد منظور کی ہے۔
26 ستمبر 2018 ء کو یورپی پارلیمان نے برسلز میں انسداد اسلاموفوبیا ٹول کٹ کا اجراء کیا اور مختلف حکومتوں، سماجی تنظیموں، میڈیا اور دیگر قانون بنانے والوں میں تقسیم کیا۔ اس اقدام کا مقصد اسلاموفوبیا سے لڑنا اور اس کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنا تھا۔اسلامو فوبیا ایک ایسی اصطلاح ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے وضع ہوئی۔ اس کے استعمال کا آغاز فرانسیسی زبان میں 1910 ء جبکہ انگریزی زبان میں 1923 ء میں ہوا 9 / 11 کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔
اسلاموفوبیا لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ”فوبیا“ (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اس سے اسلامی تہذیب اور مسلمانوں سے ڈرنا مراد لیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ جس سے غیرمسلموں کے دلوں میں اسلام کا خوف پیدا ہو، اسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اسلام میں اسے بہت مقدس کتاب سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے یا اس کی توہین کرنا ناقابلِ قبول عمل ہے, یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے خیال رہے کہ ’آزادی اظہار‘ کی آڑ میں اس اسلام مخالف عمل کی اجازت دینا، جو مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے اور ہماری مقدس اقدار کی توہین ہے، جو مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اسلامو فوبیا اظہار خیال کی آزادی کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ مغرب اپنے ہاں اسلام دشمنی کے رجحان کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اور وہ آزادی اظہار کی آڑ میں اپنے ملک میں اسلام مخالف اقدامات کو چھپاتے ہیں۔حضرت محمد ﷺکے تضحیک آمیز خاکوں اور اکارٹونز شائع کرنا، اسلام کا مذاق اڑانے والے نام نہاد ادیبوں کی پذیرائی، اور انہیں انعامات و اکرامات عطا کر کے ”سر“ کے خطاب سے سرفراز کرنا، مغرب کا محبوب مشغلہ ہے، سلمان رشدی سے تسلیمہ نسرین تک کے کتنے ہی نام اس کا ثبوت ہیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اسلام میں اسے بہت مقدس کتاب سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے یا اس کی توہین کرنا ناقابلِ قبول عمل ہے, یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہےاسلاموفوبیا لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ”فوبیا“ (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اس سے اسلامی تہذیب اور مسلمانوں سے ڈرنا مراد لیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ جس سے غیرمسلموں کے دلوں میں اسلام کا خوف پیدا ہو، اسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اسلام میں اسے بہت مقدس کتاب سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے یا اس کی توہین کرنا ناقابلِ قبول عمل ہے, یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سویڈن میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کی پاکستانی حکومت نہ صرف بھرپور مذمت کر رہی ہے بلکہ سویڈن حکومت سے مطالبہ کرتی ہے وہ ان واقعات کا بھرپور نوٹس لے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *