LOADING

Type to search

وزیراعظم شہباز شریف کا یوم تقدس قرآن منانے کا اعلان.7 جولائی احتجاج کی اپیل

Share this to the Social Media

.دنیا بھر کی امن پسند، بقائے باہمی پر یقین رکھنے والی اقوام اور قیادت اسلاموفوبیا کا شکار اور مذہبی تعصبات کی حامل متشدد قوتوں کا راستہ روکیں، مذہب، مقدس ہستیوں ، عقائد اور نظریات کو نشانہ بنانے والے متشدد ذہن دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ وزیراعظم شہبازکا کہنا ہےکہ قرآن کریم کی عزت وحرمت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس کے لیے ہم سب ایک ہیں، گمراہ ذہن اسلاموفوبیا کے منفی رجحان کو پھیلا کر مذموم ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔. وزیراعظم شہباز شریف نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف 7 جولائی کو یوم تقدس قرآن منانے کا اعلان کرتے ہوئے قوم سے جمعے کو ملک گیر احتجاج کی اپیل کی ہے ۔
وزیراعظم میڈیا ونگ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا۔ جس میں سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے معاملے پر غور کیا گیا اور وزیراعظم نے 7 جولائی کو یوم تقدس قرآن منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سویڈن واقعے پر قومی لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جمعرات کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے تمام جماعتوں سمیت پوری قوم سے احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل کی ہے اور کہا کہ پوری قوم ایک زبان ہوکر شیطانی ذہنوں کو پیغام دے گی۔
وزیراعظم کا کہنا ہےکہ جمعہ کو ملک بھر میں سویڈن واقعے کی مذمت میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں۔ وزیراعظم نےجمعرات کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔شہباز شریف نے ہدایت کی کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سویڈن واقعے پر قومی لائحہ عمل مرتب کیا جائے، پارلیمنٹ کے فورم سے قوم کے جذبات اور احساسات کی بھرپور ترجمانی کی جائے۔ یہ بھی ہدایت کی کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشترکہ قراردادمنظور کی جائے۔
وزیراعظم نے بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) پارٹی کو ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالنے کی بھی ہدایت کی ہے۔عالمی سطح پر پرامن، متوازن اور بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین رکھنے والی قوتیں مل کر ایسے رجحانات اور واقعات کے تدارک کے لیے کام کریں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ سویڈن کی حکومت قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے مجرموں کے خلاف تادیبی کاررائی کرے اور ایسے واقعات روکنے کی بھرپور کوشش کرے۔ اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پوری مسلم امہ سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کی بھرپور مذمت کرتی ہے، پاکستانی حکومت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے فیصلے کی تائید کرتی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ سویڈن میں جو واقعہ پیش آیا ہے پوری مسلم امہ، پاکستانی قوم اس کی بھرپور شدت سے مذمت کرتی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ مجرموں کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سویڈن میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کی پاکستانی حکومت نہ صرف بھرپور مذمت کر رہی ہے بلکہ سویڈن حکومت سے مطالبہ کرتی ہے وہ ان واقعات کا بھرپور نوٹس لے۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ مجھے اس بات کا بڑا اطمینان ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم نے اس پر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس اجلاس میں اس حرکت کی بھرپور مذت کی گئی بلکہ مطالبہ کیا گیا کہ نہ صرف مجرموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے۔

وزیراعظم کا 7 جولائی کو یوم تقدس قرآن منانے اور سویڈن واقعے کیخلاف احتجاج  کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت، او آئی سی کے اس فیصلے اور اجلاس کی بھرپور تائید کرتی ہے، اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا اور سویڈن حکومت سے ہمارا یہ مطالبہ جائز ہے اور ہم اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے اس کا بھرپور فالو اَپ کریں گے۔اس سے قبل اتوار کو او آئی سی نے ہنگامی اجلاس بلایا تھا اور کہا تھا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے اور سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کے بعد مذہبی منافرت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون کا استعمال کیا جانا چاہیے۔یاد رہے کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے حالیہ واقعے پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر جدہ میں منعقد ہوا۔اجلاس میں پاکستان، اردن، انڈونشیا، ملائیشیا، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت رکن ممالک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین شریک تھے۔
سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحٰہ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں زور دیا تھاکہ تمام اسلامی ممالک قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لیے اجتماعی اقدامات کریں۔اس موقع پر او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحٰہ کا کہنا تھا کہ قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی بےحرمتی اور توہین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کی ضرورت ہے، جو منافرت کو پھیلنے سے روکتا ہے۔
سیکریٹری جنرل او آئی سی نے زور دیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور ٹھوس اقدامات کریں۔
پاکستان کے سفیر برائے او آئی سی فواد شیر نے اس موقع پر پاکستان کی جانب سے قرآن پاک کی بےحرمتی کے واقعے کو قابل نفرت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب پوری امت مسلمہ عیدالاضحیٰ منا رہی تھی اور دوسری جانب قرآن پاک کو جلانے جیسی گھناؤنی اور ناقابل برداشت حرکت کی گئی جس سے پوری مسلمان دنیا کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔ پاکستانی مندوب کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور سیاسی قیادت اس فعل کی شدید مذمت کرتی ہے۔اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کونسل پاکستان کی درخواست پر سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف ہنگامی اجلاس طلب کرے گا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی طرف سے ایسی پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب عیدالاضحیٰ کے موقع پر سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک شخص نے مسجد کے باہر مسلمان کمیونٹی کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے مقدس اوراق نذر آتش کیے تھے۔ سویڈن میں پیش آنے والے اس واقعہ پر متعدد ممالک بشمول پاکستان، ترکیہ، اردن، فلسطین، سعودی عربیہ، مراکش، عراق اور ایران کی طرف سخت تنقید کی گئی تھی۔جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پاکستان کی درخواست پر فوری بحث کے لیے اپنا ایجنڈا تبدیل کرے گا ترجمان پاسکل سم نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں مذہبی منافرت کے پہلے سے سوچے گئے اور عوامی اقدامات میں خطرناک حد تک اضافے پر بحث کیا جائے گا۔ کونسل کی طرف سے یہ فوری بحث پاکستان کی درخواست کے بعد بلائی جائے گی جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کے کئی ارکان بشمول انسانی حقوق کونسل کے ارکان کی جانب سے بھیجی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ زیادہ تر امکان ہے کہ کونسل کا اجلاس اس ہفتے اس تاریخ اور وقت پر بلایا جائے جس کا تعین انسانی حقوق کونسل کے بیورو کے ذریعہ کیا جائے گا جس کا آج اجلاس ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کونسل کے 47 اراکین ہیں اور اقوام متحدہ کا اعلیٰ حقوق کا ادارہ فی الحال اپنے سالانہ تین اجلاسوں میں سے دوسرا اجلاس منعقد کر رہا ہے۔یاد رہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پوری مسلم امہ سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کی بھرپور مذمت کرتی ہے، پاکستانی حکومت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے فیصلے کی تائید کرتی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا۔ سویڈن میں جو واقعہ پیش آیا ہے پوری مسلم امہ، پاکستانی قوم اس کی بھرپور شدت سے مذمت کرتی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ مجرموں کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سویڈن میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کی پاکستانی حکومت نہ صرف بھرپور مذمت کر رہی ہے بلکہ سویڈن حکومت سے مطالبہ کرتی ہے وہ ان واقعات کا بھرپور نوٹس لے۔شہباز شریف نے کہا تھا کہ مجھے اس بات کا بڑا اطمینان ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم نے اس پر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس اجلاس میں اس حرکت کی بھرپور مذت کی گئی بلکہ مطالبہ کیا گیا کہ نہ صرف مجرموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے۔شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی حکومت، او آئی سی کے اس فیصلے اور اجلاس کی بھرپور تائید کرتی ہے، اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا اور سویڈن حکومت سے ہمارا یہ مطالبہ جائز ہے اور ہم اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے اس کا بھرپور فالو اَپ کریں گے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ سویڈن میں ایک انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کا لبادہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ خیال رہے کہ ’آزادی اظہار‘ کی آڑ میں اس اسلام مخالف عمل کی اجازت دینا، جو مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے اور ہماری مقدس اقدار کی توہین ہے، جو مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اسلامو فوبیا اظہار خیال کی آزادی کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ مغرب اپنے ہاں اسلام دشمنی کے رجحان کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اور وہ آزادی اظہار کی آڑ میں اپنے ملک میں اسلام مخالف اقدامات کو چھپاتے ہیں۔حضرت محمد ﷺکے تضحیک آمیز خاکوں اور اکارٹونز شائع کرنا، اسلام کا مذاق اڑانے والے نام نہاد ادیبوں کی پذیرائی، اور انہیں انعامات و اکرامات عطا کر کے ”سر“ کے خطاب سے سرفراز کرنا، مغرب کا محبوب مشغلہ ہے، سلمان رشدی سے تسلیمہ نسرین تک کے کتنے ہی نام اس کا ثبوت ہیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اسلام میں اسے بہت مقدس کتاب سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے یا اس کی توہین کرنا ناقابلِ قبول عمل ہے, یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے
اسلامو فوبیا ایک ایسی اصطلاح ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے وضع ہوئی۔ اس کے استعمال کا آغاز فرانسیسی زبان میں 1910 ء جبکہ انگریزی زبان میں 1923 ء میں ہوا 9 / 11 کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔
اسلاموفوبیا لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ”فوبیا“ (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اس سے اسلامی تہذیب اور مسلمانوں سے ڈرنا مراد لیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ جس سے غیرمسلموں کے دلوں میں اسلام کا خوف پیدا ہو، اسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔
پاکستان اور او آئی سی کی کوششوں سے اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے ہر سال 15 مارچ کو ”اسلاموفوبیا ڈے“ منانے کی قرار داد منظور کی ہے۔
26 ستمبر 2018 ء کو یورپی پارلیمان نے برسلز میں انسداد اسلاموفوبیا ٹول کٹ کا اجراء کیا اور مختلف حکومتوں، سماجی تنظیموں، میڈیا اور دیگر قانون بنانے والوں میں تقسیم کیا۔ اس اقدام کا مقصد اسلاموفوبیا سے لڑنا اور اس کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنا تھا۔

اس وقت پوری دنیا میں عمومی اور مغربی ملکوں یورپ و امریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدید سے شدید تر ہے، مسلمانوں سے امتیازی سلوک، اسلام کو بدنام کرنے، اس کی مقدس شخصیات و مقامات کی توہین اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے واقعات مغرب میں معمول ہیں۔
اسلامو فوبیا کا اسیر تمام مسلمانوں سے جارحانہ رویہ رکھتا ہے، اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاسکتا ہے،
انڈیا میں اسلاموفوبیا مہم چلانے والی جماعت بی جے پی نے دہشت گردی کے ہر دائرے کو پار کر دیا ہے۔ انڈیا میں مسلم مخالف تشدد اور دہشت گردی کی گئی، مساجد اور مزاروں کو نشانہ بنایا گیا، خواتین کی عزتیں لوٹیں گئی، اور مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا، جس کی واضح مثال گجرات، آسام اور برما کے خون آشام مناظر ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہوائی اڈوں، عدالتوں، تھانوں، اسکولوں، کالجز، کارپوریشنز اور ہسپتالوں وغیرہ میں امتیازی سلوک دیکھا جاسکتا ہے۔ عالمی سطح پر گوانتاناموبے اور ابو غریب کی جیلوں میں مسلمانوں کو ذہنی ذلت کا شکار بنایا گیا ہے ۔ اسلام مخالف فلمیں بنائی گئیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو جب مسلمان اپنے دور عروج میں تھے، مغرب میں اسلامو فوبیا اس وقت بھی شباب پر تھا۔ متعصب عیسائی پادری اور رہنما پورے یورپ میں گھوم گھوم کر اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے.
صلیبی جنگیں انھی جھوٹے پروپیگنڈوں کی بنیاد پر مذہبی جوش و خروش سے لڑی گئیں۔ استشراق کی کلاسیکل تحریروں میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی تفصیل موجود ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انتہا پسندی ہر سماج اور ہر مذہبی اکائی میں موجود ہے۔ جرمنی میں اس کا ظہور نیو نازی ازم تحریک میں ہوا ہے تو امریکہ میں ایونجلیکل فرقہ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ ڈنمارک، نیدرلینڈ اور انگلینڈ میں بعض سیاسی پارٹیاں لیڈر اور کئی مسیحی پادری قرآن جلانے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔
کئی پادری اور خواتین ڈبیٹرز کی اسلام مخالف ہرزہ سرائیاں یوٹیوب پر سنی جا سکتی ہیں۔ 9 / 11 کے بعد امریکہ میں ایک اسلاموفوب گروپ نے کعبہ کو بم سے اڑا دو کا مکروہ نعرہ بھی لگایا۔فرانس میں الٹرا سیکولر گروپوں اور حکومت کو مسلمان عورت کے حجاب (اسکارف ) سے ڈر لگتا ہے۔ ڈنمارک میں مساجد کے میناروں سے خوف آتا ہے۔ میں پیغمبر اسلام کے استہزائیہ کارٹون بناکراس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مفلس اور خانماں بربادشامی مہاجرین کی یورپ منتقلی سے بھی مغرب میں بعض لوگوں پر دہشت طاری ہے.
میڈیا کے بڑے بڑے گروپ، فرائیڈ مین جیسے اسرائیل نواز صحافی، جیری فالویل جیسے پادری، ڈینیل پائپس اور برنارڈلویس جیسے بڑے مستشرق سر میں سر ملائے ہوئے ہیں۔
فاکس نیوز، سی این این ، سی این بی سی کی رپورٹوں اور تجزیوں میں جانب داری جھلکتی ہے۔ ان کے اکثر اینکر اور رپورٹرز مسلمانوں اور عربوں سے عناد اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا حالیہ واقعہ، اہانت رسول کے بد بختانہ واقعات، ملعون زمانہ کارٹون اور اسی قسم کے شوشے اسلاموفوبیا کا حصہ ہیں۔
پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم کی تین سال کی کوششوں کے بعد ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022 ء میں ایک قرارداد کے ذریعے تنظیم کے کیلنڈر میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے مقابلے کے دن کے طور پر منانے کی منظوری دی۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ 15 مارچ 2019 ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح شخص نے دو مساجد کے نمازیوں پر متعدد ہتھیاروں سے حملہ کر کے 51 افراد کو قتل کر دیا۔ یہ نیوزی لینڈ کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔یاد رہے کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے حالیہ واقعے پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر جدہ میں منعقد ہوا۔اجلاس میں پاکستان، اردن، انڈونشیا، ملائیشیا، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت رکن ممالک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین شریک تھے۔
سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحٰہ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں زور دیا کہ تمام اسلامی ممالک قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی توہین کے واقعات کی روک تھام کے لیے اجتماعی اقدامات کریں۔اس موقع پر او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحٰہ کا کہنا تھا کہ قرآن پاک اور پیغمبر اسلامﷺ کی بےحرمتی اور توہین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کی ضرورت ہے، جو منافرت کو پھیلنے سے روکتا ہے۔
سیکریٹری جنرل او آئی سی نے زور دیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور ٹھوس اقدامات کریں۔
پاکستان کے سفیر برائے او آئی سی فواد شیر نے اس موقع پر پاکستان کی جانب سے قرآن پاک کی بےحرمتی کے واقعے کو قابل نفرت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب پوری امت مسلمہ عیدالاضحیٰ منا رہی تھی اور دوسری جانب قرآن پاک کو جلانے جیسی گھناؤنی اور ناقابل برداشت حرکت کی گئی جس سے پوری مسلمان دنیا کو شدید تکلیف پہنچی ہے۔ پاکستانی مندوب کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور سیاسی قیادت اس فعل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ قرآن پاک کی بےحرمتی کاواقعہ نفرت انگیز اور نسل پرستی پر مبنی ہے۔ آزادی اظہار یا احتجاج کے نام پر ایسے واقعات کو جواز نہیں بنایا جاسکتا۔
انکا کہنا تھا کہ عالمی قوانین کےتحت ریاستیں پابند ہیں کہ وہ مذہبی منافرت جیسے واقعات نہ ہونے دیں۔ پچھلے کچھ برسوں سے مغرب میں اسلام مخالف واقعات سامنے آئے ہیں۔مغرب اپنے ہاں اسلام دشمنی کے رجحان کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں۔ مغرب تو جو کر رہا ہے سو اس نے کرنا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری دینی و ملی قیادت بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے، قوم کی تربیت ان خطوط پر کرے کہ وہ قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں تاکہ ان کا طرزعمل اسلامو فوبیا کے پروپیگنڈے کے ازالے کا باعث بنے۔ آزادی اظہار کا لبادہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔دفتر خارجہ پاکستان کی ترجمان کا کہنا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی، مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اظہار رائے کی آزادی میں نہیں آتا۔ انسانی حقوق کے علمبردار نفرت انگیز عمل کی روک تھام کی ذمہ داری نبھائیں، انسانی حقوق کے علمبردار لوگوں کو تشدد پر نہ اکسانے کی ذمہ داری نبھائیں، اسلام امن کا مذہب ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان تمام مذاہب کے احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ سوئیڈن اور ترکیہ کے درمیان نیٹو کی رکنیت کو لے کر کشیدگی چل رہی ہے۔ سوئیڈن نیٹو میں شمولیت کا خواہاں ہے لیکن ترکیہ گزشتہ برس مئی سے اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ترکیہ کا کہنا ہے کہ پہلے سوئیڈن ترک صدر طیب اردگان کے ناقدین اور کرد رہنماؤں کو ڈی پورٹ کرے لیکن سوئیڈن یہ مطالبات تسلیم نہیں کر رہا۔ اسی اثناء میں سوئیڈن کی انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند جماعت کے رہنما راسموس پلودن نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے کو اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے باہر احتجاج کرے گا اور اس دوران وہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
سوئیڈش حکام نے راسموس کو قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دے دی تھی جس پر ترکیہ نے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا جبکہ دو روز میں سوئیڈن کے سفیر کو دو بار طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کراچکا ہے۔ترکیہ نے نیٹو رکنیت کے معاملے پر بات چیت کیلئے سوئیڈش وزیر دفاع کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کردیا ہے اور کہا ہے کہ اب مذاکرات کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا۔ سوئیڈن کے وزیر دفاع پال جانسن نے کہا ہے کہ ترکیہ کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکیں۔ خیال رہےکہ راسموس پلودن اور اس کی پارٹی کی جانب سے اس سے قبل بھی اسلام مخالف حرکات کی جاتی رہی ہیں، 2022 اور 2020 میں بھی پلودن نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنےکی تقریب کے انعقاد کی کوشش کی تھی جس کے بعد سوئیڈن میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔سویڈن میں دائیں بازو کے اسلام مخالف انتہا پسندوں کی جانب سے قرآن پاک جلانے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ انتہا پسند ڈچ سیاستدان ریسمس پلودن نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی تقریب میں شرکت کی کوشش کی ہے ۔ پولیس نے ڈچ سیاستدان پلودن کو قرآن پاک کی بے حرمنی کرنے اور اسے نذر آتش کرنے کی تقریب سے روکتے ہوئے ڈج سیاستدان کو واپس سرحد پار بھیج دیا اور کہا کہ ان پر ملک میں داخلے کے لیے دو سال کی پابندی عائد ہے۔ انتہا پسندوں نے اسلام مخالف ڈچ رہنما کو قرآن پاک کی بے حرمتی کی تقریب میں شرکت کی اجازت نہ ملنے پر سویڈن کے جنوبی شہر میلمو میں مظاہرے مظاہرے شروع کر دیے۔ پولیس سے جھڑپوں میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسلام مخالف مظاہرین نے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا اور دکانوں کو آگ لگا دی۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں کئی پولیس اہلکار و افسران زخمی ہوئے جب کہ فسادات کے الزام میں 10 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ انتہا پسند جماعت کے ڈینش سربراہ اسٹارم کرس کو ڈنمارک میں گزشتہ برس نسلی تعصب کے الزامات پر ایک ماہ جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی سویڈن میں اسلام مخالف انتہا پسندوں نے قرآن پاک کو نذر آتش کیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کی تھی۔
سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور کئی ممالک میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
ایران اور عراق میں سوئیڈش سفارت خانوں پر ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔ عراقی مظاہرین نے سویڈن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ او آئی سی کے اعلامیے میں کہا تھا کہ اس قسم کے اقدامات کی سنگینی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ رواداری اور اعتدال پسندی جیسے اقدار کے پھیلاؤ اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی بین الاقوامی کوششوں سے متصادم ہیں,ی اعلامیے میں متعلقہ ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ ان ’گھناؤنے حملوں‘ کی روک تھام سمیت قرآن اور دیگر اسلامی اقدار، علامتوں اور مقدسات کی بے حرمتی کی تمام کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کے سلسلے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔
او آئی سی نے تمام ممالک پر عائد ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر انسانی اور بنیادی حقوق کا احترام اور ان کی پابندی کا فروغ تمام ریاستوں پر فرض ہے۔ ذمہ داری کے ساتھ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق آزادی اظہار کے حق کا استعمال کیا جائے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے مذاہب، ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے، افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
یورپی یونین نے بھی اس واقعے کو شدید انداز میں مسترد کرتے ہوئے اسے ’جارحانہ، توہین آمیز اور اشتعال انگیزی پر مبنی اقدام‘ قرار دیا ہے۔ سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعے پر یورپی یونین نے بیان جاری کیا اور کہا کہ سویڈن میں قرآن کریم کی بےحرمتی کے عمل کو مسترد کرتے ہیں، یہ واقعہ جارحانہ، بےعزتی پر مبنی اشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے۔ یورپی یونین کے مطابق یہ عمل کسی بھی طرح یورپی یونین کی رائےکی عکاسی نہیں کرتا، بےحرمتی کا واقعہ ایسے وقت کیا گیا جب مسلمان عیدالاضحیٰ منا رہے تھے، یورپی یونین مذہب یا عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کھڑی ہے، نسل پرستی، نفرت انگیزی، عدم برداشت کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں۔ خیال رہے کہ 28 جون کو 37 سالہ سلوان مومیکا نے قرآن پاک کے بارے میں اپنی ’رائے کا اظہار‘ کرنے کے لیے پولیس سے قرآن پاک کے اوراق نذرآتش کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔

احتجاج سے قبل اس شخص نے نیوز ایجنسی ’ٹی ٹی‘ کو بتایا تھا کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ یہ جمہوریت ہے، اگر وہ ہمیں بتائیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے تو یہ خطرے میں ہے۔پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں اور اپنے اردگرد عربی میں اس عمل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے درمیان اس شخص نے میگا فون کے ذریعے کئی درجن کے ہجوم سے خطاب کیا۔ اس شخص نے قرآن پاک کو زمین پر پھینکا اور سویڈن کا جھنڈا لہراتے ہوئے اوراق کو نذرآتش کیا۔واضح رہے کہ اس سال کے شروع میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے ایک رہنما پالوڈن نے ڈنمارک کی ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کر دیا تھا جس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ اسی نے 21 جنوری کو بھی سویڈن میں ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے اسلام اور امیگریشن مخالف مظاہرے کے دوران ایسی ہی حرکت کا ارتکاب کرتے ہوئے قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذرآتش کرکے بے حرمتی کی تھی۔

Previous Article

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *