LOADING

Type to search

لاہور (بگ ڈیجٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اسموگ چیلنجز پر قابو پانے کیلئے کوشاں

Share this to the Social Media

……. (اصغر علی مبارک)..
وزیراعلیٰ پنجاب پاکستان مریم نواز پنجاب میں صحت کے فروغ کے ساتھ سموگ کے چیلنجز پر قابو پانے کے لیے کوشاں اور پرعزم ہیں ,اس حوالے سے انہوں نے تمام متعلقہ محکموں اور کمشنرز کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔لیکن لوگوں کو بھی ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔راولپنڈی میں فوری ایکشن کی ضرورت ہے ورنہ لاہور جیسا حال ہو گا۔وزیراعلیٰ مریم نواز نے سموگ کے خاتمے کی مشترکہ کاوشوں کے لئے انڈین پنجاب کے سی ایم کو خط لکھنے کا اعلان کیاہے مریم نواز نے دیوالی کی تقریب میں کہاکہ سموگ سیاسی نہیں انسانی مسئلہ ہے۔ سموگ کے خاتمے کے لئے کام کررہے ہیں تو انڈین سائیٹ سے میچنگ رسپانس ہونا چاہیے، سموگ کی زہریلی ہواؤں کو بیچ کی لکیر کا پتہ نہیں – ماحولیاتی نقصان دونوں طرف پہنچ رہاہے جب تک دونوں پنجاب مل کر اقدامات نہیں کریں گے سموگ سے نہیں لڑ سکتے۔صوبائی حکومت نے پنجاب نیشنل کلائمیٹ ایکٹ 1958 کے سیکشن 3 کے تحت سموگ کو آفت قرار دیتے ہوئے صوبے بھر کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ریلیف کمشنرز کے اختیارات سونپ دیے ہیں، ڈی کمشنرز اسموگ پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے مجاز ہونگے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ اسموگ کو ختم کرنے کے لیے ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہوگا، یہ مسئلہ حل کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے جب کہ بھارتی پنجاب کوبھی اسموگ کے تدارک کے لیے ایکشن لینا ہوگا، اسموگ کے تدارک کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کالا شاہ کاکو میں کسانوں میں زرعی آلات تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسموگ کو ختم کرنے کے لیے ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہوگا، بھارتی پنجاب کے باعث ہمارے ہاں اسموگ میں اضافہ ہوا ہے، بھارتی پنجاب کوبھی اسموگ کے تدارک کے لیے ایکشن لینا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ کسان میرے دل کے بہت قریب ہیں، پنجاب کی ترقی کا راستہ کھیتوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ میری زراعت کی ٹیم مجھ سے ایک قدم آگے چل رہی ہوتی ہے، ذراعت ایسا شعبہ ہے جس کے بغیر ترقی ممکن نہیں، ٹریکٹرز اسکیم کے لیے 16 لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 300 کے قریب سپرسیڈر کسانوں میں تقسیم کررہے ہیں، کسانوں کو 1000 کے قریب سپرسیڈر فراہم کریں گے، 7 ارب کے سپر سیڈر منصوبے کے لیے 8 لاکھ روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔ سموگ سےلاہورفضائی آلودگی کاگڑھ بن گیا ہے،اسموگ دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے جس سے عموماً زیادہ گنجان آباد صنعتی علاقوں میں واسطہ پڑتا ہے۔ لفظ اسموگ انگریزی الفاظ اسموک اور فوگ سے مل کر بنا ہے۔پرووینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعلامیے کے مطابق انسداد سموگ کےلیے فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی ہےجبکہ سالڈ ویسٹ، کوڑا کرکٹ، شاپنگ بیگز، ٹائر اور پلاسٹک جلانے پر بھی پابندی ہے، صوبائی حکومت نے غیر معیاری ایندھن کی فروخت اور استعمال پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹریفک رکاوٹ کا باعث بننے والی پارکنگز کا خاتمہ کیا جائے گا، پانی کے بغیر سٹون کرشرز کے استعمال پر پابندی عائد ہوگی،ایمیشن کنٹرول سسٹم کے تحت صنعتی یونٹس چلانے پر پابندی ہو گی۔
فضائی آلودگی نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، اوزون، دھواں یا کم دکھائی دینے والی آلودگی مثلا کاربن مونوآکسائیڈ، کلورو فلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔جب فضا آلودہ ہو یا وہ گیسز جو اسموگ کو تشکیل دیتی ہیں، ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان گیسوں اور اجزا کے ساتھ ماحول پر ردعمل کا اظہار اسموگ کی شکل میں کرتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہوائی آلودگی ہی ہوتی ہے۔عام طور پر یہ زیادہ ٹریفک، زیادہ درجہ حرارت، سورج کی روشنی اور ٹھہری ہوئی ہوا کا نتیجہ ہوتی ہے، یعنی سرما میں جب ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے تو اس سے دھوئیں اور دھند کو کسی جگہ ٹھہرنے میں مدد ملتی ہے جو اسموگ کو اس وقت تشکیل دے دیتا ہے جب زمین کے قریب آلودگی کا اخراج کی شرح بڑھ جائے۔اسموگ بننے کی بڑی وجہ پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، صنعتی پلانٹس اور سرگرمیاں، فصلیں جلانا (جیسا محکمہ موسمیات کا کہنا ہے) یا انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت ہے۔اسموگ انسانوں، جانوروں، درختوں سمیت فطرت کے لیے نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔کسی شہر یا قصبے کو اسموگ گھیر لے تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں جو آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے یا سینے میں خراش اور جلد کے مسائل سے لے کر نمونیا، نزلہ زکام اور دیگر جان لیوا پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔ اسموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لیے دورے کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے، اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں بند رکھیں۔باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینسز لگانے کے بجائے عینک کو ترجیح دیں۔اسموگ کے دوران ورزش سے دور رہیں خصوصاً دن کے درمیانی وقت میں، جب زمین پر اوزون کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اگر دمہ کے شکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس ان ہیلر رکھیں، اگر حالت اچانک خراب ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔اگر نظام تنفس کے مختلف مسائل کے شکار ہیں اور اسموگ میں نکلنا ضروری ہے تو گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں جہاں ٹریفک جام میں پھنسنے کا امکان ہو، سڑک پر پھنسنے کے نتیجے میں زہریلے دھویں سے بچنے کے لیے گاڑی کی کھڑکیاں بند رکھیں۔پانی اور گرم چائے کا زیادہ استعمال کریں۔ سیگریٹ نوشی ویسے ہی کوئی اچھی عادت نہیں تاہم اسموگ کے دوران تو اس سے مکمل گریز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ باہر سے گھر واپسی یا دفتر پہنچنے پر اپنے ہاتھ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو دھولیں۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب لاہور سمیت پنجاب کے مختلف حصے شدید اسموگ کی لپیٹ میں ہیں۔پنجاب میں اسموگ کو آفت قرار دیے جانے کے بعد انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ( ای پی اے) نے لاہور کے تمام اسپیشل ایجوکیشن اسکولوں کو آلودہ ہوا کے حوالے سے حساس طبیعت یا طبی علامات رکھنے والے تمام طلبہ کو جمعے سے 3 ماہ کی تعطیلات پر بھیجنے کا حکم دے دیا۔ ہوا کے معیار پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے آئی کیو ایئر ڈاٹ کام کے مطابق جمعرات کو صبح کے وقت لاہور کا ایئرکوالٹی انڈیکس ( اے کیو آئی) 201 ریکارڈ کیا گیا جو کہ دنیا میں دوسری بلند ترین شرح تھی جبکہ 50 سے کم اے کیو آئی کو نظام تنفس کے لیے محفوظ تصور کیا جاتا ہے جبکہ لاہور میں ریکارڈ کیا گیا اے کیو آئی انتہائی غیر صحت مند کے زمرے میں آتا ہے۔ پیر کی رات لاہور کو 708 اے کیو آئی پوائنٹس کے ساتھ دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پنجاب حکومت نے اسموگ کو آفت قرار دے دیا تھا۔ صوبائی حکومت نے پنجاب نیشنل کلائمیٹ ایکٹ 1958 کے سیکشن 3 کے تحت سموگ کو آفت قرار دیتے ہوئے صوبے بھر کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ریلیف کمشنرز کے اختیارات سونپ دیے ہیں، ڈی کمشنرز اسموگ پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے مجاز ہونگے۔
ویسے تو ہر سال ہی موسم سرما کے ساتھ ہی ملک کے بالائی اور وسطی حصے شدید دھند کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، مگر یہ مسئلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔زمین سے فضاءمیں جانے والی آلودگی کے ذرات دھند کے ساتھ مل کر اسموگ پیدا کرتے ہیں۔صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں شروع ہونے والا ‘اسموگ’ یا آلودہ دھند کا سلسلہ مسلسل جاری ہے جس کے باعث کئی حادثات بھی پیش آچکے ہیں۔ لاہور سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں نظامِ زندگی بُری طرح سے متاثر ہوا، وہیں شہریوں کو بھی سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں محکمہ موسمیات نے پنجاب کے میدانی علاقوں میں چھائی دھند کی وجہ ہوا کے دباؤ میں کمی اور فضائی آدلودگی کو قرار دیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ چند روز تک اسی طرح سے جاری رہے گا۔کچھ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اس موسمیاتی کیفیت کی وجہ لاہور میں ہونے والے تعمیراتی کام اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں ہے جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہےکچھ لوگ اس کی وجہ پاکستان اور ہندوستان کے میدانی علاقوں میں فصلوں کو جلائے جانے کو بھی قرار دے رہے ہیں۔ فصلوں کو جلانے کا عمل تو ہر سال ہی ہوتا ہےیہ آلودگی بھارت سے پھیل رہی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور ماضی میں بھی ایسی رپورٹس منظرِعام پر آئی ہیں جن میں اس جانب توجہ مرکوز کروائی گئی تھی اگر ہندوستان سے بھی کوئی آلودگی پاکستان میں آرہی ہے تو ہمیں اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے 2014 میں عالمی ادارہ برائے صحت کی رپورٹ میں لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں آلودگی کی صورتحال انتہائی خطرناک تھی جس کی وجہ وہاں تعمراتی کاموں کے ساتھ ساتھ صنعتوں سے خارج ہونے والا دھواں بھی ہے بدقسمتی سے پنجاب حکومت کے پاس اب تک کوئی ایسی مشین یا ٹیکنالوجی ہی موجود نہیں جس سے ایئر ٹیسٹ ممکن ہو اور اس کی درست وجہ تک پہنچا جاسکے۔یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر حکومتِ پنجاب کو توجہ دینی چاہیے تاکہ موحولیاتی مسائل پر کوئی پالیسی بنائی جائے اور ساتھ ہی ایسے آلات کا استعمال کیا جائے جو اس طرح کی تبدیلی کا جائزہ لے سکیں۔جس طرح بھارت اور چین میں اس طرح کی صورتحال میں اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اب ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ لوگوں کو اس کے نقصانات سے بچایا جاسکے، ساتھ ہی عوام میں آگاہی بھی پیدا کرنی ہوگی کہ اس قسم کے حالات میں انہیں کون کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔محکمہ تحفظ ماحول پنجاب لاہور میں اسموگ میں اضافے کا الرٹ جاری کر دیا۔ سیکرٹری تحفظ ماحول پنجاب کی جانب سے جاری الرٹ کے مطابق پڑوسی ملک بھارت میں کثرت سے فصلوں کی باقیات جلانے سے لاہور کے ایئر کوالٹی انڈیکس میں اضافے کا احتمال ہے۔ الرٹ میں کہا گیا ہے کہ آلودہ مشرقی ہواؤں سے لاہو کے ایئر کوالٹی انڈیکس میں غیرمعمولی اضافہ ہو سکتا ہے، اس وقت ہوا کی رفتار 4 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، جس کا لاہور کی جانب چند گھنٹے مزید چلنے کا امکان ہے۔سیکریٹری تحفظ ماحول نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند رکھیں۔ واضح رہے کہ لاہور میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے بتائی گئی قابل قبول لیول سے 80 گنا زیادہ رہی جب کہ ایک عہدیدار نے شہر کی ریکارڈ بلند سطح قرار دیا۔محکمہ موحولیات نے بتایا تھا کہ لاہور میں فضائی آلودگی انتہائی حد کو بھی عبور کرگئی، ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) ایک ہزار سے بھی بڑھ گیا جب کہ آئندہ 48 گھنٹے اسموگ کی شدت برقرار رہے گی۔ صبح 9 بجے تک ایئر کوالٹی انڈیکس (فضا میں ہوا کا معیار) ایک ہزار 67 تک پہنچ گیا تھا جب کہ صبح 11 بجے تک اے کیو آئی 700 تک آگیا تھا اور لاہور فضائی آلودگی میں بدستور دنیا میں سرفہرست رہا۔ ترجمان محکمہ موحولیات کے مطابق بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے سے اٹھنے والا شدید دھواں پاکستان میں داخل ہوچکا ہے اور بھارت سے آنے والی تیز ہواؤں نے لاہور میں فضائی آلودگی انڈیکس ایک ہزار تک پہنچا دیا۔مہلک آلودگی (پی ایم2.5) کی سطح ایک ہزار 67 تک پہنچ گئی جب کہ صبح میں یہ سطح 300 کے قریب ہوگئی جب کہ ڈبلیو ایچ او کی طرف سے 10 سے اوپر کی سطح کو غیر صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔ باریک ذرات (پی ایم 2.5)، موٹے ذرات (پی ایم 10)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او 2) اور اوزون (او 3) شامل ہیں، 100 سے زیادہ اے کیو آئی کو ’مضر صحت‘ جب کہ 150 سے زیادہ کو ’بہت زیادہ مضر صحت‘ سمجھا جاتا ہے۔ شہر میں سموگ کی اوسط شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، شہر کا ایئر کوالٹی انڈیکس 709 تک پہنچ گیا، ڈی ایچ اے کے علاقے کا ایئر کوالٹی انڈیکس 1319 تک جا پہنچا ہے
بھارت سے آنے والی آلودہ ہواوں سے شہر کی فضا انتہائی مضر صحت ہوگئی ہےجبکہ ایئرکوالٹی انڈیکس بھی ایک ہزار سے زائد رہاہے۔ حکومتِ پنجاب نے الرٹ جاری کیا تھا کہ بھارت میں کثرت سے فصلوں کی باقیات جلانے سے لاہورکے ائیر کوالٹی انڈیکس میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔بھارت میں جلائی گئی فصلوں اور کچرے کا دھواں اور ہوا لاہور پہنچ رہی ہے، پڑوسی ملک سے آنے والی تیز ہواؤں کی وجہ سے لاہور فضائی آلودگی انڈیکس میں پہلے نمبر پر رہا، بھارت کے دو شہر دہلی اور کلکتہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں , بھارتی شہروں جالندھر، لدھیانہ، چندی گڑھ، بھٹنڈہ، کرنال، گورداسپور، امرتسر اور اٹاری سے دھوئیں کے گہرے سیاہ بادل تیز ہواؤں اور مرغولوں کی شکل میں پاکستانی علاقوں میں آرہے ہیں بھارت کی طرف سے چلنے والی ان ہواؤں سے سب سے زیادہ متاثر لاہور متاثر ہو رہا ہے، صوبائی دارالحکومت میں اسموگ کی صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے ۔سینئر وزیر پنجاب نے لاہور میں ایک ہفتے کے لیے پرائمری اسکول بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسموگ کی صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے 5ویں جماعت تک اسکولوں کو ایک ہفتے کی چھٹے دے رہے ہیں۔ سینئر وزیر پنجاب نے کہا کہ لاہور کی فضا کا معیار انتہائی مضر صحت ہونے کے سبب دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور کا آج پھر پہلا نمبر ہے۔ سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانے اور دھویں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا، امرتسر و چندی گڑھ سے ہوا پاکستان آئی تو اس میں اسموگ بہت تیز تھی، بھارت سے اسموگ آئی اور ایک دم پھیل گئی اور بھارت کی طرف سے چلنے والی ہواؤں سے سب سے زیادہ لاہور متاثر ہوا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اسموگ کے تدارک کے لیے حکومت پنجاب نے اقدامات کیے، 8 ماہ میں پہلی بار پنجاب حکومت نے تمام محکموں کو بٹھا کر لائحہ عمل دیا، اسموگ سے بچاؤ کے حکومتی پلان پر سختی سے عملدرآمد کرایا جارہا ہے، 550 سے زائد بھٹوں کو مسمار کیا گیا ، پلاسٹک بیگز پر پابندی لگائی گئی ہے، لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے تجاوز کر گیا ہے، کل مختلف علاقوں میں اے کیو آئی 1900 تک ہوگیا تھا، بعد میں یہ اے کیو آئی کافی کم ہوگیا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’عوام اسموگ کی صورتحال میں احتیاطی تدبیر اختیار کریں، ہماری ٹیمیں فیلڈ میں ہیں، صورتحال کو دیکھ رہے ہیں، اسموگ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر گرفتاریاں بھی کی جارہی ہیں، اب تک ایک ہزار سپر سیڈز کسانوں میں بانٹے گئے ہیں، ای بائیکس منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔‘ حکومت کی جانب سے خراب فضائی معیار کے باعث لاہور کے شہریوں کو گھروں میں رہنے اور کھڑکی دروازے بند رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دوسری جانب محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے کسی حصے میں بارش کا کوئی امکان نہیں اور پنجاب کے بیشتر علاقوں کا اسموگ سے متاثر رہنے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب محکمہ تحفظ ماحول نے لاہور اسموگ کا نیا الرٹ جاری کیا جبکہ اسموگ سے متعلق تازہ ترین صورت حال پنجاب حکومت کی گرین ایپ پر جاری کی جارہی ہیں۔
پنجاب حکومت نے اپیل کی کہ عوام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں، بزرگ، بیمار اور بچے خاص طور پر احتیاط کریں، ماسک لازمی پہنیں، غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں۔
پنجاب میں اسموگ ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر بھرپور کارروائیاں جاری ہیں، فصلوں کی باقیات اور دیگر مقامات پر آگ لگانے پر 607 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اسموگ سے متعلق کریک ڈاؤن میں 24 افراد گرفتار اور 17 مقدمات درج کیے گئے۔ اکتوبر کے مہینے میں آلودگی پھیلانے والی ایک ہزار 344 گاڑیاں بند کی گئیں، 2 ہزار 397 گاڑیوں کے چالان اور ایک کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے جبکہ دو ڈرائیورز کو بھی گرفتار کیا گیا۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے شاہراہوں، انڈسٹریل ایریاز سمیت دیگر مقامات پر انسداد سموگ کریک ڈاؤن میں تیزی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیف سٹی کیمروں کی مانیٹرنگ سے زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ فصلوں کی باقیات، کوڑا کرکٹ جلانے اور قانون شکنی کے مرتکب فیکٹری و بھٹہ مالکان کے خلاف زیرو ٹالرنس کے تحت کاروائی کو یقینی بنایا جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *