LOADING

Type to search

اسلام آباد (بگ ڈیجٹ) وزیراعظم کا کامیاب دورہ سعودی عرب , اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری پیکج پر اتفاق

Share this to the Social Media

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سعودی عرب کےکامیاب دورے کے بعد پاکستان واپس آ گئے ہیں ۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں، جن کی جڑیں مذہبی اور ثقافتی وابستگی پر ہیں، پاکستان کے عوام حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے لیے انتہائی عزت اور احترام رکھتے ہیں۔ جدہ کے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کمشنرجدہ شہزادہ سعود بن عبداللہ بن جلوی، ڈپٹی میئر انجینیئرعلی بن محمد القرنی، پولیس ڈائریکٹر میجر جنرل سلیمان بن عمر الطویرب نے شہباز شریف کو الوداع کیا۔ مکہ مکمرمہ ریجن میں رائل پروٹوکول کے ڈائریکٹر احمد عبداللہ بن ظافر بھی موجود تھے۔
خیال رہےکہ وزیراعظم شہباز شریف عہدہ سبنھالنے کے بعد اپنے پہلے غیرملکی دورے پرسعودی عرب پہنچے تھے۔ وزیراعظم نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں نوافل اد کیے اور روضہ رسول پر حاضری دی بعد ازاں عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے۔شہباز شریف اتوار کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ مکہ مکرمہ کے ریلوے اسٹیشن پر پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے وزیراعظم کا استقبال کیا تھا ۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے وفد کے ہمراہ عمرہ ادا کیا تھا۔ وزیراعظم نے خانہء کعبہ میں نوافل بھی ادا کیے تھےاوربیت اللہ کے دروازے کھول کر وزیراعظم کو زیارتِ خاص کروائی گئی تھی ۔ اس موقع پر وزیراعظم کی ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور امت مسلمہ کی یکجہتی کے لئے خصوصی دعا کی تھی ۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب میں وفاقی کابینہ کے ارکان اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ باضابطہ ملاقات میں ولی عہد اور شہباز شریف نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات، دوطرفہ تعاون کے پہلووں اور مختلف شعبوں میں انہیں ترقی دینے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔ علاوہ ازیں علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں ہونے والی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نےملاقات میں دیرینہ برادرانہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کا 5 ارب ڈالر مالیت کا پیکج تازہ ہوا کا جھونکا ہے سعودی عرب پاکستان کا قابل اعتماد دوست اور مشکل گھڑی میں کام آنے والا بڑا بھائی ہے,وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نےمکہ المکرمہ کے الصفا پیلس میں ایک باضابطہ ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے پاکستان میں پانچ بلین ڈالر مالیت کے نئے سعودی سرمایہ کاری پیکج کے پہلے فیز کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کے بیان کے مطابق ملاقات کے آغاز میں سعودی عرب کے ولی عہد نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کی مستقل حمایت اور مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا اور دوطرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
بات چیت کا محور دونوں برادر ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کے راستے تلاش کرنے پر رہا۔ ملاقات میں پاکستان کی معیشت میں سعودی عرب کے معاون کردار اور تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی باہمی خواہش پر زور دیا گیا۔
دونوں رہنمائوں نے پاکستان میں 5 بلین ڈالر مالیت کے نئے سعودی سرمایہ کاری پیکیج کے پہلے فیز کو جلد از جلد پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
دونوں رہنمائوں نے غزہ کی تشویشناک صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کی علاقائی اور عالمی پیشرفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو روکنے، انسانی ہمدردی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے بین الاقوامی کوششوں پر زور دیا اور بین الاقوامی برادری کے لئے اسرائیل پر دشمنی بند کرنے، بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے اور غزہ تک بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی کے لئے دبائو ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔


انہوں نے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعلقہ قراردادوں کے ساتھ ساتھ عرب امن اقدام کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا جس کا مقصد ایک آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو ، اسکے قیام کے لئے ایک منصفانہ اور جامع حل تلاش کرنا ہےیاد رہے کہ
پاکستان، سعودی عرب کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات اور دوطرفہ تعاون کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ اقتصادی اور تجارتی سطح پر دوطرفہ معاونت کو مزید وسعت دی جائے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں وزیراعظم شہباز شریف کے وفد کو مثالی مہمان نوازی اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ روابط کو مزید مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔
پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے لئے وسیع مواقع موجود ہیں اور دونوں ملک سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سرمایہ کاروں کو قریب لایا جائے اور باہمی دلچسپی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے روابط کو نئی بلندیوں پر لے جایا جائے۔۔سعودی عرب کی جانب سے ریکارڈ سرمایہ کاری پیکیج تیار کیا گیا ہے جو کہ ممکنہ طور پر مالی بحران کے شکار برادر اسلامی ممالک کے لیے ریلیف کا باعث ہو گا۔ اس پیکیج سے علاقائی جیو پولیٹیکل چیلنجز سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں سب سے اہم گوادر پورٹ پر تیل کی ریفائنری اور آئل کمپلیکس میں سرمایہ کاری ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت، جو کہ مشرق وسطی میں پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری پاکستان کی معیشت کیلئے ایک لائف لائن کا باعث بن سکتی ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کیلئے ایک امدادی پیکیج ہو گا جس کا مقصد پاکستان پر بیرونی قرضوں کے دباو اور بیرون ملک زرمبادلہ کے دخائر میں کمی کو پورا کرنا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ معیشت کی بحالی میں بھی کردار ادا کریگا
اوپیک کے اہم رکن سعودی عرب کی جانب سے تیل کی ریفائنری اور اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کا مقصد اسٹریٹیجک اور کمرشل اہداف حاصل کرنا ہے
سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی متحدہ عرب امارات کی جانب سے پہلے ہی پاکستان کے مرکزی بینک میں 3 ارب ڈالر کی رقم جمع کروائی جا چکی ہے تا کہ اس کے ذریعے ادائیگیوں کے توازن اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو مستحکم کیا جائے۔
سعودی عرب کاایک ہدف یہ بھی ہے کہ وہ دنیا بھر میں ریفائننگ میں اپنی سرمایہ کاری کو وسعت دینا چاہتا ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر کسی مسابقت کی صورت میں تیل کی برآمدات میں اپنا مارکیٹ شیئر بچانے میں کامیاب رہے
سعودی عرب نے گوادر پورٹ تیل کی ریفائنری اور پیٹروکیمیکلز کمپلیکس کیلئے 10ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب تیل کی دیگر سپلائرز کی طرح دنیا بھر میں ریفائنری اور پیٹروکیمیکلز کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔
گوادر سے چین تک پائپ لائن کی تعمیر سے سپلائی کی مدت 40 روز سے کم ہو کر صرف 7 روزتک ہو جائے گی۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے تعمیر کردہ گوادر پورٹ مستقبل میں ایک انڈسٹریل حب ہو گا جس سے وسطی ایشیا، افغانستان، مشرق وسطی اور افریقا تک رسائی آسانی سے ہو گی۔
چین کے ساتھ ساتھ پاکستان سرمایہ کاری کیلیے ایک تیسرے امیر پارٹنر کی شمولیت کا بھی خواہاں ہے جو اس کی رقوم کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو ۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں، دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ گذشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے،
سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ سے بڑے بھائی والا برتاو کیا ہے اور جب کبھی پاکستان کو ضرورت پڑی ہے سعودی عرب نے پاکستان کو مایوس نہیں کیا۔
سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ یک جان دو قالب ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
پاکستان اور سعودی عرب دو ایسے ممالک ہیں جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور نظریے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔
23ستمبر 1932 کو سعودی عرب بھی احیائے اسلام کے نام پر وجود میں آیا تو پاکستان بھی کلمے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کو تسلیم کرنے میں بھی سعودی عرب نے دیر نہ لگائی۔ اسی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی بنیاد ابتدا میں ہی قائم ہو گئی جو اب تک قائم و دائم ہے,
سعوی عرب کے حکمران پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا بھائی سمجھا ہے۔
سعودی حکمرانوں نے پاکستان سے محبت اور تعلق کا اظہار متعدد بار دو ٹوک انداز میں کیا ہے سعودی حکمرانوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔
1965 کا پاک بھارت معرکہ ہو یا 1971 کی جنگ، سعودی عرب نے پاکستان کو ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ 1974 میں او آئی سی اجلاس کی میزبانی کا شرف پاک سرزمین کو حاصل ہوا۔ اس کا انعقاد بھی سعودی عرب ہی کی محنت کا ثمر تھا۔ اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے پاکستان کو شرف میزبانی بخشا
پاکستان کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے صحت، تعلیم، انفراسٹرکچراور فلاحی منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب کبھی بھی پاکستان پر برا یا کڑا وقت آیا تو شانے سے شانہ ملا کر کھڑا ہوا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے مثالی تعلقات کی واضح مثال پاکستان کے ایٹمی دھماکے ہیں، دنیا کے اکثر ممالک ایٹمی دھماکوں پر پاکستان سے خوش نہ تھے۔ بہت سے ملکوں نے پاکستان کی امداد بند یا مختصر کردی تھی۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک پر بد ترین عالمی پابندیاں عائد ہوئیں تو سعودی عرب اس موقع پر بھی بڑا بھائی بن کر سامنے آیا۔ایک برس تک 50ہزار بیرل تیل ادھار دیا۔ 2005 کے بد ترین زلزلے اور تباہ کن سیلاب میں سعودی عرب نے پاکستان کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس مشکل وقت میں شاہ عبداللہ کا پاکستان کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہی تو تھا کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے تھے اور موجودہ شاہ سلمان بن عبد العزیز بھی پاکستان سے اسی طرح محبت و الفت رکھتے ہیں جس طرح سابقہ شاہ پاکستان سے رکھتے تھے۔
اسی طرح پاکستان نے بھی کڑے وقت میں ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اس کے باعث بھی پوری دنیا کے مسلمان انکے ساتھ خصوصی عقیدت رکھتے ہیں جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا احترام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب کی کوشش رہی ہے کہ مسلم امہ میں اتحاد قائم کرے اور اسکے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے۔
سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کیا ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں،انہوں نے جب پاکستان کو ضرورت تھی تو پاکستان کے خزانے میں تین ارب ڈالر جمع کرائے اسکے علاوہ تیل کی مد میں پاکستان کو مدد فراہم کی۔
سعودی عرب پاکستان میں مزید سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس میں ایک ارب ڈالرز سے اضافہ کرکے اسے 10 ارب ڈالرز تک پہنچائے گا۔
ساتھ ہی وہ اس بات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے رہا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں اپنے ڈالرز رکھے۔ اس وقت یہ رقم 3 ارب ڈالرز ہے جسے 5 ارب ڈالرز تک پہنچایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی یہ حمایت ایسی ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں دے سکتا۔
لیکن کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تعلقات کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ جب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک مثبت موڑ آتا ہے، ایسے عناصر منفی پہلووں کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی رسمی، عارضی، مصلحت کی دوستی نہیں بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام ایک دسرے سے روحانی تعلق کے تحت باہم جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستانیوں کے وجود کا مرکز و محور مکہ انکی روح ہے تو مدینہ میں ان زندگی ہے۔
پاکستان اپنی روح اور زندگی کے بغیر ادھورے ہیں۔ وہ ان دونوں کے بغیر نہ مکمل اور کچھ بھی نہیں اس لئے یہ رشتہ دونوں ممالک کے درمیان تاازل قائم و دائم رہے گا۔
کچھ عاقبت نااندیشوں نے ان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن دونوں جانب کے عوام اور حکمران جانتے ہیں کہ یہ دراڑیں ڈالنے والے کامیاب نہیں ہونگے بلکہ دونوں کے درمیان تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پروان چڑھیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *