LOADING

Type to search

ااسلام آباد(بگ ڈیجٹ) وزیراعظم کاکڑکاغزہ کی انتہائی خوفناک صورتحال پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ

Share this to the Social Media

نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں موجودہ کرائسس میں فوری جنگ بندی ہونی چاہیے، غزہ کی صورتحال انتہائی خوفناک ہے، وہاں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ واضح طور پر اسرائیل-فلسطین معاملے پر مغربی سفیروں کو پاکستان کے جذبات سے آگاہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی حوصلہ شکنی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ حالیہ کشیدگی میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداریاں کھلنی چاہیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ان کو آنے والے دنوں، ہفتوں یا مہنیوں میں اس بحران کا حل نظر نہیں آرہا کیونکہ یہ مسئلہ ’دائمی‘ ہے، تاہم وہ اس بات پر برقرار رہے کہ اسرائیل کی ’نامناسب جارحیت‘ کی وجوہات موجود ہیں۔اسرائیل-حماس تنازع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال قابل مذمت ہے جو انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ بحران میں فوری سیزفائر ہونا چاہیے اور لوگوں تک امداد کی رسائی دی جائے، یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جس کا مستقبل قریب میں ہمیں کوئی حل نظر نہیں آرہا لیکن اسرائیل کے جبر کا کسی قسم کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا، ان شا اللہ ہم مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔اس سے پہلے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطینی صدر محمود عباس کو فون کر کے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم سے پیدا صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ٹیلیفونک رابطے میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے صدر محمود عباس سے فلسطین کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی۔ وزیراعظم نے اسرائیلی فوج کی غزہ کے اسپتال پر بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری خونریزی روکنے کے لیے اسرائیل پر زور دے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ بحران کے حل کے لیے اقدامات کرے،انہوں نے دو ریاستی حل پر مبنی تنازع فلسطین کے منصفانہ حل کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔
اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے انسانی امداد کی فراہمی کیلئے غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے پر بھی زور دیا۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس نے فلسطینی عوام کی حمایت پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔یاد رہےکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں معصوم فلسطینی بچوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں 3 ہزار 500 بچے شہید ہوچکے ہیں، ایک ہزار لاپتا بچوں کے ملبے میں دبے ہونےکا بھی خدشہ ہے۔عالمی تنظمیم ‘سیو دی چلڈرن’ کا کہنا ہےکہ صرف 24 روز میں موت کی آغوش میں جانے والے غزہ کے بچوں کی تعداد گزشتہ 4 سال میں دنیا بھر میں جنگ زدہ علاقوں میں ہلاک بچوں سے زیادہ ہے۔
پاکستان کی جانب سے فلسطینی عوام کی امداد کیلئے پاک فوج اوراین ڈی ایم اے کی امدادی اشیاء کی پہلی کھیپ اسلام آباد سے مصر پہنچ چکی ہے جہاں رفاح کراسنگ کھلنے کے بعد امدادی اشیاء غزہ میں داخل ہو سکیں گی۔العریش ائیر پورٹ غزہ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہےپاکستان سے 81 ٹن انسانی اور طبی امداد لےکر خصوصی طیارہ مصر پہنچا ہے جہاں مصر میں پاکستان کے سفیر ساجد بلال نے امداد مصری ہلال احمر سوسائٹی کے سپرد کی۔
پاکستانی سفارتخانے کا کہنا ہےکہ پاکستان اس نازک موڑ پر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان فلسطینیوں کو ضروری امدادی سامان بھیجتا رہے گا۔ پاکستان کی جانب سے فلسطینی عوام کی امداد کیلئے روانہ کیے جانے والے امدادی سامان میں ایک ہزار خیمے، 4 ہزار کمبل اور 3 ٹن دوائیں شامل ہیں۔ یاد رہےکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر 10 منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔ یونیسیف کی جانب سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے باعث مرنے والے بچوں سے متعلق اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ غزہ میں ہر 10 منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کےادارہ برائے اطفال یونیسیف کا کہنا ہےکہ غزہ میں ہر روز 420 سے زائد بچے اسرائیلی بمباری سے شہید یا زخمی ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی کی جانب سے فلسطینیوں پر جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، اسرائیل نے فلسطین پر زمینی اور فضائی دونوں راستوں سے حملے کیے ہیں جس میں اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد 8400 سے زائد ہوگئی ہے جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ اسرائیلی بمباری سے 23 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں جب کہ شہدا میں 73 فیصد بچے، خواتین اور عمر رسیدہ افراد ہیں۔اسرائیلی فلسطین کے اسپتالوں کو نشانہ بنانے سے بھی باز نہیں آرہا، غزہ کے واحد کینسر اسپتال کے قریب بھی بمباری کی گئی، غزہ پر اسرائیلی بمباری سے طبی عملے کے 124 ارکان شہید ہوچکے ہیں، غزہ وزارت صحت کے مطابق بمباری سے اب تک 32 طبی مراکز غیر فعال اور 25 ایمبولینس ناکارہ ہوچکی ہیں۔واضح رہے کہ 7 اکتوبرسے جاری حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 8 ہزار 400 ہوگئی جب کہ 23 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، شہدا میں سے 73 فیصد بچے،خواتین اور عمررسیدہ افراد ہیں,اسرائیلی حملوں سے ہائرایجوکیشن سے وابستہ سوا 400 طلبہ بھی شہید ہوئے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ہلاک اہلکاروں کی تعداد 63 تک جاپہنچی ہے۔دن رات فضائی حملوں نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا، 45 فیصد رہائشی مکان اور عمارتیں تباہ ہوگئی ہیں جب کہ سامان کی قلت کے سبب اقوام متحدہ کو امدادی مشن محدود کرنا پڑگیا۔ دوسری جانب غزہ میں داخلے کے لیے 75 امدادی ٹرک مصر کے رفح بارڈر پہنچ گئے ہیں ،رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ میں جانے سے پہلے ٹرکوں کی تلاشی کر رہی ہے۔ 7 اکتوبر سے پہلے روز 455 ٹرک غزہ میں داخل ہوا کرتے تھے، مصری حکام کے مطابق جنگ چھڑنے کے بعد سے رفح کراسنگ پر صرف 193 امدادی ٹرک پہنچے ہیں جن میں سے بھی غزہ میں محض 118 ٹرک داخل ہوئے ہیں۔فلسطینی ریڈ کراس کا کہنا ہےکہ اسرائیلی فوج کی سخت چیکنگ سے امداد پہنچنے کا سلسلہ سست روی کا شکار ہے، امدادی ٹرکوں میں صرف خوراک، پانی اور دوائیں لے جانے کی اجازت ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد حماس سے دشمنی ختم کرنے پر اتفاق نہیں کرے گا، سیز فائر کا مطلب ہے اسرائیل حماس، دہشتگردی کے آگے ہتھیار ڈال دے، یہ جنگ کا وقت ہے، یہ جنگ ہمارے مشترکہ مستقبل کے لیے ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہمیں تہذیب اور بربریت کی قوتوں کے بیچ لکیر بنانی ہے، اسرائیل نے یہ جنگ شروع نہیں کی، حماس اس برائی کے ٹولے کا حصہ ہے جسے ایران تشکیل دے رہا ہے۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے امریکی حکمران اشرافیہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ واضح رہے کہ روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ ، یوکرین ، عراق اور شام کے واقعات کے پیچھے بھی امریکی حکمران اشرافیہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ امریکی حکمران اشرافیہ مقدس سر زمین پر افراتفری چاہتی ہے ، فلسطینیوں کی مدد ان لوگوں سے لڑکر کی جاسکتی ہے جو اس تنازع کے پیچھے ہیں، ہم ان لوگوں سے یوکرین میں لڑ رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ زمینی جارحیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 8 ہزار 306 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 3457 بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 15 ہزار 500 سو فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ 25 ویں دن سے جاری ہے اور فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ زمینی حملے بھی تیز کر دیے گئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں مزید 219 فلسطینی شہید ہوگئے۔ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 8525 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ شہید افراد میں 3542 بچے اور 2187 خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کا غزہ میں جنگ بندی سے انکار ، شہید فلسطینیوں کی تعداد 8400 سے زائد ہوگئی اسی طرح اب تک 21 ہزار 543 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ بیان کے مطابق 2 ہزار افراد اب بھی تباہ شدہ عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن میں 1100 بچے بھی شامل ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں اور طبی مراکز کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بیان میں بتایا گیا کہ طبی ٹیموں کے خلاف جنگی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور 130 طبی ورکرز شہید ہو چکے ہیں۔
اب تک 57 طبی مراکز کو اسرائیل نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جن میں سے 32 مراکز ایندھن کی کمی یا تباہ ہونے کے باعث بند ہو چکے ہیں۔
غزہ کے ترک فرینڈ شپ کینسر اسپتال پر بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری کی گئی جس کی و جہ سے اسپتال کا ایک حصہ تباہ ہوگیا اور کینسر کے شکار متعدد مریضوں کو اس وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ زمینی حملے بھی تیز کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں مزید 219 فلسطینی شہید ہوگئے۔ بیان کے مطابق 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 8525 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔بیان میں مزید بتایا گیا کہ شہید افراد میں 3542 بچے اور 2187 خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کا غزہ میں جنگ بندی سے انکار ، شہید فلسطینیوں کی تعداد 8400 سے زائد ہوگئی اسی طرح اب تک 21 ہزار 543 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔2 ہزار افراد اب بھی تباہ شدہ عمارات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن میں 1100 بچے بھی شامل ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں اور طبی مراکز کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ طبی ٹیموں کے خلاف جنگی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور 130 طبی ورکرز شہید ہو چکے ہیں۔اب تک 57 طبی مراکز کو اسرائیل نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جن میں سے 32 مراکز ایندھن کی کمی یا تباہ ہونے کے باعث بند ہو چکے ہیں۔
غزہ کے ترک فرینڈ شپ کینسر اسپتال پر بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری کی گئی جس کی و جہ سے اسپتال کا ایک حصہ تباہ ہوگیا اور کینسر کے شکار متعدد مریضوں کو اس وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔غزہ میں اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کے ساتھ ساتھ 9 اکتوبر سے ایندھن کی سپلائی بھی بند کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں طبی نظام مکمل منہدم ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ بیان کے مطابق لوگوں کے لیے تمام تر کوششوں اور اسپتالوں کے لیے ایندھن کے ہر قطرے کی تلاش کے بعد اب ہم اپنے سفر کے اختتام پر پہنچ گئے ہیں۔ اگر کوئی معجزہ نہیں ہوتا تو شفا اسپتال کا جنریٹر یکم نومبر کو بند ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ شفا اسپتال غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے جس میں سیکڑوں مریض زیر علاج ہیں جبکہ ہزاروں شہری اسرائیلی جارحیت سے بچنے کے لیے وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے شہید افراد کی تعداد ساڑھے 8 ہزار سے زائد ہوگئی , ایندھن کے ختم ہونے سے انڈونیشین اسپتال کا جنریٹر بھی یکم نومبر کو بند ہو جائے گا۔ فلسطینی وزارت صحت نے مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں ایندھن اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ فلسطینی وزارت صحت نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں اور طبی مراکز کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ طبی ٹیموں کے خلاف جنگی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور 130 طبی ورکرز شہید ہو چکے ہیں۔ اب تک 57 طبی مراکز کو اسرائیل نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جن میں سے 32 مراکز ایندھن کی کمی یا تباہ ہونے کے باعث بند ہو چکے ہیں۔ غزہ کے ترک فرینڈ شپ کینسر اسپتال پر بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری کی گئی جس کی و جہ سے اسپتال کا ایک حصہ تباہ ہوگیا اور کینسر کے شکار متعدد مریضوں کو اس وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیل کی فوج کو جنوبی لبنان میں 16 اکتوبر کو ہونے والی کارروائی میں بلاتفریق اور غیرقانونی طور پر سفید فاسفورس استعمال کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا گیا کہ ان حملوں کی تفتیش جنگی جرائم کے طور پر ضرور ہونی چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *