دنیا بھر میں اقتصادی نوعیت کے فیصلے کرتے وقت اس اصول کو سامنے رکھا جاتا ہے کہ مالدار طبقے سے براہ راست ٹیکسوں کے دریعے سرمایہ حاصل کرکے پسے ہوئے طبقات کی فلاح وبہبودو پر خرچ کیا جائے-بد ترین سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والے معاشرے تک میں یہ بات مد نظر رکھی جاتی ہے کہ وسائل پر قابض اشرافیہ جن طبقوں کی محنت کا پھل کھا رہی ہے ‘ انہیں اتنی آسانیاں ضرور فراہم کی جائیں کہ وہ زندگی کے حسن کو محسوس کریں اور ہنسی خوشی معیشت کا پہیہ رواں رکھیں-
پاکستان میںمیں آزادی کی ابتدائی برسوں کو چھوڑ کر فیصلہ سازوں اور اکنامک منیجرز کا سارا زور اس بات پر رہا ہے کہ عام آدمی کے پیر کے نیچے سے زمین کھسکائی جاتی رہے اور وسائل پر اشرافیہ کے قبضے کو زیادہ وسیع ومستحکم جاتا رہے- گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ صورت حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ عوام کے لئے زندگی ایک آزار بن گئی ہے- پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو آگ لگائی اور اب پے درپے بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عام آدمی کا جینا اجیران کردیا ہے-
ملک کے70فیصد سے زائدعوام اس کیفیت سے دوچار ہیں کہ بجلی کا بل دیں یا بچوں کے لئے تعلیم’ صحت اور خوراک کا بندوبست کریں- اشرافیہ طبقات کے اللوں تللوں نے ملک کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں آگے سمندر اور پیچھے گہری کھائی ہے-چاروں طرف خطرناک گھنٹیاں بج رہی ہیں مگر افسوس حکمران طبقات اس صورت حال پر بھی پریشان اور نادم نہیں-ملک کی تمام بڑی جماعتیں مہنگائی کے رحجان خصوصا بجلی کے بلوں سے آنے والے طوفان کی ذمہ دار ہیں اور اب سب کچھ نگرانوں پر چھوڑ کر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں-
ملک بھر میں مہنگی بجلی کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل کے بعد بڑا سوال یہ ہے کہ یہ احتجاج کیا رخ اختیار کرے گا’ بجلی کے بل پر25فیصد سے زائد ٹیکسز کا کیا جواز ہے؟ بجلی کی قیمتوں میں بد ترین اضافے کی بڑی وجہ اربوں روپے کا سرکلر ڈیٹ ہے جس نے پورے نظام کو گرفت میں لے رکھا ہے’ اربوں کے اس سرکلر ڈیٹ کا بوجھ غریب اور مہنگائی زدہ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے’ بلوں پر دس سے زائد ٹیکس وصول کئے جارہے ہیں جس میں انکم ٹیکس’ جی ایس ٹی’ فیول ایڈ جسٹمنٹ’ ٹی وی’ ریڈیو’ ایکسائز سمیت دیگر ٹیکس شامل ہیں-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ٹیکس وصولی کا یہ سلسلہ بجلی بلوں سے مشروط کیوں کیا گیا ہے ؟’ لائن لاسز اور بجلی چوری کا بوجھ بھی عوام پر ڈال کر انہیں کیوں لوٹا جارہا ہے؟-ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا6سو ارب روپے سے زائد کی بجلی لائن لاسز اور چوری کی مد میں اڑائی جاتی ہے-ملک بھر میں لاکھوں صارفین پانچ’ دس ہزار روپے ماہانہ ادائیگی کے عوض لاکھوں کی بجلی استعمال کرتے ہیں او ریہ بجلی چوری محکمہ کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں-
پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ پاکستان کی تباہ حال معیشت کوبھی مزید متزلزل کرنے کے مترداف ہے اطلاعات کے مطابق مہنگی توانائی کی وجہ سے رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں نان ٹیکسٹائل برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 9فیصد سے زائد جبکہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں11فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے50-سے زائد چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس بند ہوچکے ہیں اور جو چل رہے ہیں ان کی پیدوار بھی کم ہوچکی ہے-
مہنگی توانائی کے باعث پیدواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے برآمدی شعبوں کے لئے عالمی منڈی میں مسابقت پیدا کرنا ممکن نہیں رہا- مہنگی بجلی کے خلاف شہریوں کا غصہ دو آتش بنتا جارہا ہے – اگر نگران حکومت اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے درجن سے زائد ٹیکس وصولی کے عمل کو ہی بلوں سے منہا کردے تو وقتی ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے لیکن کیا عالمی مالیاتی فنڈ کو اس حوالے سے مطمئن کیا جاسکے گا؟ یہ بذات خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ آئی ایم ایف اس حوالے سے کوئی بھی ریلیف دینے کو تیار نہیں-
بجلی کی قیمتوں پر عوامی تشویش اور ملک گیر احتجاجی لہر کے دوران وفاقی حکومت نے اس مسئلے پر غور کرنے کے لئے جو ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا وہ دوسرے روز بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا -نگران وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ وزارت توانائی نے بجلی کے بلوں کے مسئلے پر تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے- ملک کے شعبہ توانائی کے بد تر نظام’ بد انتظامی’ بد عنوانیوں اور مسائل کو دیکھا جائے تو اس میں جامع اصلاحات کے بغیر بجلی کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی-
بجلی چوری’ بل نہ دینے کی روش’ انتہائی مہنگے پیدواری وسائل پر انحصار اور بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کے ہوتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں-پاور ڈویژن کے حکام نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں انکشاف کیا ہے کہ رواں سال آئی پی پیز کو کپسٹی چارجز کی مد میں13کھرب روپے ادا کئے جائیں گے-ان کا کہنا ہے کہ2013میں کیپسٹی چارجز کا حجم185ارب روپے تھا جو2019میں میں بڑھ کر642ارب ہوگیا2021-میں796ارب2022میں971ارب اور 2023میں1300ارب ہوگیا جبکہ2024کے لئے کیپسٹی چارجز کا تخمینہ2010ارب روپے ہے-
توانائی شعبے کو درپیش مسائل دہائیوں کا ورثہ ہیں جن پر توجہ دینے اور ان کا سدباب کرنے’ سستی بجلی کے حصول کے اقدامات کرنے کے بجائے ہر حکومت نے اس سے صرف نظر اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات سے کام چلانا مناسب سمجھا جس کے باعث مسائل کا طور مار بڑھتا چلا گیا اور حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سابق دور حکومت میں بے قابو گردشی قرضوں کا بندوبست کرنے کے لئے بجلی کے صارفین پر انواع واقسام کے ٹیکس تھوپ دیئے گئے یہ دیکھے اور سمجھے بغیر کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا-
ارباب اختیار واقتدار کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے اب سب کے سامنے ہے شہر شہر لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بلوں کی مسئلہ احتجاجی تحریک کی صورت اختیار کرچکا ہے اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا کہنا ہے کہ صورت حال تیزی سے سول نافرمانی کی جانب جارہی ہے- مہنگائی کا سونامی اور مہنگی بجلی کا بوجھ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہوچکا ہے اگر حالات جوں کے توں رہے تو لا محالہ عوام کے ہاتھ ان گریبانوں تک پہنچ سکتے ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں….