پنجاب کونسل آف دی آرٹس ،پلاک لاہور آرٹس کونسل الحمراء اور دیگر خود مختار ثقافتی اداروں کا 15،سال کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے سینئیرترین ایونٹ آرگنائزر پیرسیدسہیل بخاری کا نگران حکومت پنجاب سے مطالبہ
لاہور – ایشین کلچرل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل، چیئرمین ایوارڈز کمیٹی سینئر ترین ایونٹ آرگنائزر، معروف کالم نگار پیرسیدسہیل بخاری نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی ، نگران وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عامر میر، سیکرٹری اطلاعات وثقافت پنجاب ملک علی نواز اور چیف سیکرٹری پنجاب اور نیب حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب کونسل آف دی آرٹس ،لاہور آرٹس کونسل (الحمراء) ،پلاک اور دیگر خود مختار ثقافتی اداروں کا گزشتہ 15،سال کا خصوصی فرانزک آڈٹ کروایا جائے کرپشن کی کئی شاخیں حکومت کو مل جائیں گی – قبل ازیں انٹی کرپشن نے بھی لاہور آرٹس کونسل کے خصوصی آڈٹ کا حکم ستمبر 2021ء کا دیا ہوا ہے جس کا سابق حکومت پنجاب کے اعلیٰ حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا- اسی طرح مارچ 2023ء میں کلچرل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے آڈٹ کروانے کا نوٹس کیا یوا ہے مگر کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا – خود مختار ثقافتی ادارے کرپشن کی آماجگاہ بنے ہوۓ ہیں گریڈ کی بندر بانٹ کی جاتی ہے اپنے رشتہ داروں کو بھرتی کیا جاتا ہے ہر ادارے نے اپنا پبلک سروس کمیشن بنا رکھا ہے ہر دوسرا ملازم کلرک سے 17،ویں سکیل کا آفیسر بن گیا ہے اور کسی حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی – آرٹس کونسل الحمراء میں گریڈ کی بندر بانٹ ہو رہی ہے جونیئر کلرک 17،ویں سکیل کے گزیٹیڈ آفیسر بن گئے ہیں – اور الحمراء پنجاب پبلک سروس کمیشن کا کردار ادا کر رہا ہے اور ڈائریکٹ 17،ویں 16،ویں سکیل کی بھرتی اور دیگر غیر قانونی اقدامات کررہے ہیں – لاکھوں روپے جشنِ ازادی کے ترانوں پر لگایا گیا – کروڑوں روپے الحمراء کی کلاسوں کی تزئین وآرائش پر لگایا گیا جو کہ کسی اندھے کو بھی نظر آجائے گا کہ اتنی زیادہ رقم کہاں خرچ ہوئی ہے اور جن کے باپ کے پاس سائیکل تک نہ تھی آج لگژری گاڑیوں، فارم ہاؤسز کے مالک بن گئے ہیں – پیر سید سہیل بخاری نے کہا کہ یہ لوگ ٹقافتی ڈاکو ہیں آرثس کونسلیں فنکاروں کیلئے بنائی گئی تھی ارٹ اور کلچر کے فروغ کیلئے مگر اب آرٹ کونسلوں کو جو سرکاری گرانٹ ملتی ہے وہ سب سے زیادہ ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں خرچ ہوتی ہیں – پنجاب آرٹس کونسل کی ضلعی کونسلوں کا بھی احتساب کیا جاۓ – خود مختار اداروں کا باوا آدم ہی نرالا ہے باپ بھی ملازم ہے بیٹا بھی سرکاری نوکری کے مزے لوٹ رہا ہے – الحمراء کے تمام ہالز کی بُکنگ کا اختیار ایک بندے کو حاصل ہے جس نے الحمراء کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے – اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے – الحمراء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھاری تنخواہ پر کنٹریکٹ پر ملازمت مل جاتی ہے اور کوئی حکومت کا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے – پیر سید سہیل بخاری نے کہا کہ ایک وقت تھا جب 75،افراد پر مشتمل ملازمین تمام ہالز کا انتظام چلاتے تھے آج تقریباً 200 سے زائد ملازمین ہیں جن کے بیٹھنے کیلئے کوئی خاطر خواہ انتطام نہیں ہے اکثر ملازمین پکنک منا نے آتے ہیں اور ادہر ادہر بیٹھ کر چلے جاتے ہیں اور اکثریت ملازم 17،ویں اور 16،سکیل میں پرموٹ ہیں اور سال میں تین تین بار ترقی حاصل کی ہے اور یہ سب ملی بھگت سے جاری ہے _